23 مارچ کو یوم پاکستان روایتی انداز میں منانے کی بجائے ان مقاصد کو مدِنظر رکھناہو گا اوراُن حالات کو دیکھنا ہوگا جن سے گزر کر پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔ قیام پاکستان کے وقت لوگوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا۔لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کے بعد پاکستان کا عمل وجود میں آیا ان قربانیوں کاکیا ثمر ملا آج پاکستان کی 70فیصد آبادی غربت میں زندگی بسر کررہی ہے۔ پاکستان اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکا۔ وہ پاکستان جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھااور قائداعظم نے اس خواب کو عملی جامہ پہنایا۔ کیا یہ وہی پاکستان ہے، جو آج ہماری نوجوان نسل کے سامنے ہے؟ کیا اس پاکستان کی تعبیر کی تھی، قائداعظم نے؟ جہاں پر معاشی، سماجی ، مذہبی اور کئی مسائل کی بھر مار ہی نہیں بلکہ یہاں پر ماڈرنزم کے نام پہ قوم کی ذہنی صلاحیتوں سے کھیلا جا رہا ہے اور اس میں سب سے زیادہ اور اہم کردار ہمارا میڈیا ادا کر رہا ہے ۔ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں لیکن ہسپتالوں اور علاج معالجے کے بارے میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ تعلیم کا تناسب بہت کم ہے۔ غریب آدمی نہ اپنا علاج کرواسکتا ہے اور نہ ہی اپنے بچوں کو تعلیم دے سکتا ہے۔ان سب مسائل کا غصہ لوگ جرائم کر کے نکالتے ہیں یعنی اس ماڈرنزم کی وجہ سے لوگ اس قدر انتشار کا شکار ہو گئے ہیں کہ ان کے لئے صحیح اور غلط کی تمیز ختم ہو گئی ہے۔ اسی لئے ہمیں بحیثیت ایک قوم یہ چاہیے کہ ہم اکٹھے ہوں ۔ ہمیں چاہیے پنجاب، سندھ، بلوچ اور سرحد کے نعرے لگانا چھوڑیں اورمتحد ہوجائیں ہمیں اپنے ملک کو ترقی کی منازل تک لے جانے کے لئے فرقہ واریت اور تعصبات کو چھوڑ کر صرف پاکستانی بننا ہوگا۔ جب تک ہماری سوچ ایک نہیں ہوگی ہم ایک قوم بن کر نہیں اُبھریں گےاور ملک ترقی نہیں کرسکے گا۔ اس سوچ کواپنانےکے لیے ہمیں الزام تراشی ترک کرناہوگی۔14 اگست کا دن برصغیر کے مسلمانوں کے لیے آزادی کی نوید لے کر آیا تھا آج ہمیں اسی دن کی مناسبت سے عہد کرنا ہوگا کہ ملک کے تحفظ اور ترقی کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔ بلاشبہ یہی زندہ قوموں کا شعار ہے۔
فیس بک کمینٹ