جہانگیر ترین کی دشمنی میں یہ شخص اتنا آگے نکل جاے گا کہ ملکی مفاد بھی داو پر لگا دے …. کسی کو اس سے یہ امید نھیں تھی ………..
قریشی خاندان کے چشم و چراغ نے اصل مالکان کو خوش کرتے ہوئے دوسری مرتبہ وزیراعظم عمران خان کی پیٹھ میں چھرا گونپنے کی دانستہ کوشش کی ۔ دو ہفتے پہلے شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کرکے پبلک فورم پر آکر جہانگیرترین کے خلاف گفتگو کی، حالانکہ وہ کابینہ اجلاس میں بھی اپنی بات کرسکتے تھے یا پھر عمران خان سے علیحدگی میں ملاقات کرکے بھی اپنے تحفظات بیان کر سکتے تھے کہ جہانگیرترین کو کابینہ اجلاس میں نہ بلایا جائے لیکن قریشی صاحب نے جان بوجھ کر پریس کانفرنس کرکے اس معاملے کو اچھالا اور مخالفین کو باتیں کرنے کا موقع دیا۔ سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ قریشی صاحب نے گیپ دیکھ کر شاٹ کھیلا تھا یعنی اپرچونسٹ (موقع پرست) ٹائپ کے بندے ہیں جہاں موقع دیکھتے ہیں اپنی گیم ڈال دیتے ہیں۔
دو دن پہلے اورماڑہ میں دہشتگردی کا ایک اور بدترین واقعہ پیش آیا جس میں نیوی اور ائیر فورس کے 14 جوان شہید ہوگئے۔ جس پر شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ ایران سے ٹھیک ایک دن پہلے پریس کانفرنس کرکے قوم کو بتایا کہ دہشتگرد ایران کی سرحد استعمال کرتے ہوئے پاکستان داخل ہوئے اور کارروائی کرکے بحفاظت آسانی سے واپس چلے گئے۔
قریشی صاحب نے بتایا کہ دہشتگرد ایران سے 18 اپریل کو پیدل پاکستان میں داخل ھوے اور کارروائی کرکے واپس چلے گئے۔ میں حیران ہوں کہ ایران بارڈر سے اورماڑہ کا سفر 445 کلومیٹر بنتا ھے یعنی اگر دہشتگرد اچھی گاڑیاں لیکر بھی نکلیں تو بھی انہیں 6 سے 7 گھنٹے درکار ہیں متعلقہ جگہ پر پہنچے کے لیے اور واپس جانتے کے لیے بھی اتنا ہی وقت درکار ھے لیکن کیونکہ قریشی صاحب کے بقول وہ پیدل آئے تھے تو دہشتگردوں کو متعلقہ جگہ تک پہچنے کے لیے 14 سے 15 دن کا پیدل سفر طے کرنا پڑتا ہے اور اتنے ہی دن واپس جانے میں لگتے ہیں۔ اس لیے قریشی صاحب کی باتوں میں بیحد تضاد پایا جاتا ہے، اگر قریشی صاحب یہ کہہ دیتے کہ وہ گاڑیوں پر آئے تھے تو بھی سوال اٹھتا ہے کہ کسی بھی چک پوسٹ پر ان دہشتگردوں کو کیوں نہ روکا گیا اور کیوں کارروائی نہ کی گئی؟۔ خیر کہتے ہیں نا کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ میں کہتا ہوں کہ ایک لحظے کے لیے یہ مان بھی لیتے ہیں کہ دہشتگردوں نے سرحد استعمال کی، پیدل چودہ دنوں کا سفر منٹوں میں کرلیا اور کسی کو نظر بھی نہیں آئے تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ معاملہ تو وزیراعظم عمران خان دورہ ایران کے دوران بھی تو اٹھا سکتے تھے یا خود شاہ محمود قریشی صاحب بھی ایرانی آفیشلز کے ساتھ اس معاملے کو اٹھا سکتے تھے۔
دورہ ایران کا جو شیڈول اور ایجنڈے کے پوائنٹس شئیر کیے گئے ہیں اس میں بارڈر سیکیورٹی کا معاملہ ٹاپ پر ہے، تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ قریشی صاحب نے کس کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے؟۔ سچ یہی ہے کہ شاہ محمود قریشی نے عمران خان کے دورے کو ثبوتاژ کرنے کی کوشش کی ھے ۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہ محمود قریشی عمران خان کے پہلے دورہ ایران پر ساتھ بھی نہیں جا رھے اور اچانک جاپان کی تیاری پکڑ لی تھی ۔ باخبر لوگوں کا ماننا ہے کہ قریشی صاحب کی نگاہ وزارت عظمیٰ پر ٹکی ہوئی ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ لوگ ملکی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے ابن الوقت لوگ تاریخ کے کوڑے دان کا مقدر ٹھہرتے ہیں.
فیس بک کمینٹ