پی ٹی آئی قیادت کے مطابق عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں ضمانت میرٹ پر منظور ہو گئی ہے، مگر ان کی رہائی ابھی تک ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی عبوری ضمانت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان پر درج 62 کیسز میں سے کئی میں مقدمات کی تفصیلات کی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی گئی، مگر اس کے باوجود ان کی رہائی ممکن نظر نہیں آتی۔ اس کے ساتھ ہی ملک کی سیاسی صورتحال بھی بے یقینی کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد ان کی سیاسی حرکات نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جہاں نہ کوئی سمت واضح ہے اور نہ ہی کسی طرف سے کوئی مستقل حل سامنے آ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے احتجاج کی کال اور اسلام آباد تک عوام کو پہنچانے کے اقدامات نے ملک کے سیاسی منظرنامے میں مزید ابہام پیدا کر دیا ہے۔
اس وقت پاکستان میں جس نوعیت کا سیاسی بحران جاری ہے، اس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کر رہے ہیں، جبکہ عوام کو اس تمام کشمکش میں کہیں بھی اپنی بہتری کا امکان نظر نہیں آ رہا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کی قیادت میں پی ٹی آئی نے مسلسل احتجاجی تحریکوں کا آغاز کیا ہے، جن کا مقصد نہ صرف حکومت کو دباؤ میں لانا ہے بلکہ عوامی حمایت بھی حاصل کرنا ہے۔ مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ احتجاج صرف ذاتی مفادات کے لیے ہے یا واقعی ملک کی بہتری کی کوشش ہے؟ جب ایک طرف ملک معاشی بحران، بے روزگاری اور دہشت گردی جیسے مسائل سے الجھ رہا ہو، تو اس وقت سیاسی ہلچل صرف حکومت کی ناہلی اور بے بسی کو عیاں کرتی ہے۔ کیا سیاسی جماعتوں کا یہ طرز عمل پاکستان کے عوام کے حقیقی مسائل سے نمٹنے میں معاون ثابت ہو گا یا یہ صرف ایک نیا سیاسی بحران جنم دے گا؟
اسی دوران پی ٹی آئی کی قیادت کی طرف سے اسلام آباد تک احتجاجی کال دینا ایک نیا سیاسی بحران پیدا کر رہا ہے
پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے اسلام آباد تک احتجاج کی کال دینا، ایک ایسا فیصلہ ہے جو محض سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری، اور بدترین امن و امان کی صورتحال سے پریشان ہیں۔
پاکستان کی معیشت اس وقت شدید بحران کا شکار ہے، اور اس بحران کے اثرات صرف عوام تک ہی محدود نہیں بلکہ بیرونی سرمایہ کاری پر بھی پڑ رہے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، احتجاج اور سیاسی بحران نے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو متاثر کیا ہے، جس کا براہ راست اثر ملک کی معیشت اور سرمایہ کاری پر پڑ رہا ہے۔ جب ایک ملک کی سیاست اتنی غیر مستحکم ہو کہ اس میں احتجاج، دھرنے اور حکومت کی تبدیلی کے لیے جدوجہد کی جائے، تو بیرونی سرمایہ کار اس ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔اگر سیاسی بحران اس سطح تک پہنچ جائے کہ ہر دن احتجاج، دھرنوں اور سٹریٹ پاور کے ذریعے حکومت کی قوت کو چیلنج کیا جائے، تو اس سے پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ بیرونی سرمایہ کار یہ دیکھ کر اپنی سرمایہ کاری کو روک دیں گے، اور ملکی معیشت مزید دگرگوں ہو جائے گی۔
اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اس کی سیاست کو دریا کی طرح بے قابو ہونے سے بچایا جائے۔ ہمیں ایک ایسا سیاسی حل تلاش کرنا ہو گا جس میں تمام سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی مفادات کے بجائے ملک کی بہتری کے لیے کام کریں۔ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اس قدر مداخلت کو کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں سیاسی استحکام آ سکے۔پاکستان کی سیاست کو دریا کی طرح بے قابو ہونے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک نیا سیاسی اور اقتصادی ڈھانچہ تشکیل دیں، جو ملک کی فلاح کے لیے کام کرے نہ کہ ذاتی مفادات کے لیے۔آخری بات یہ کہ اگر کوئی ڈنڈے سوٹے کی سیاست کرنا چاہتا ہے تو اسے نو مئی والا انجام یاد رکھنا چاہیے ۔
فیس بک کمینٹ