لندن : ’لباس ہی زیادتی کی وجہ نہیں۔۔ پانچ چھ سال کی بچی کے ساتھ زیادتی اور لباس کا آپس میں کیا تعلق؟؟؟ دیہی علاقوں میں خود کو ڈھانپ کر رکھنے والی خواتین کے ساتھ کیوں زیادتی ہوتی ہے؟ ریپ کا ذمہ دار ریپ کرنے والا ہے نہ کہ جس کا ریپ ہوا اس کا لباس۔‘
’ریپ کا پردے اور لباس سے گہرا تعلق ہے۔ آپ کو کیا پتہ اسلام کا؟ جو عورت برقعہ پہنتی ہے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔‘
’یہ معاشرہ ذہنی طور پر مفلوج اور الجھن کا شکار ہے اور عمران خان اسی معاشرے کی عکاسی کر رہے ہیں۔ مذہب کے پیچھے چھُپنا ایک مشغلہ بن گیا ہے۔ محض روایات کو مذہب سمجھ لیا گیا ہے اور بنیادی اخلاقیات جو مذہب سکھاتا ہے، ان کا خانہ بلکل خالی ہے۔ حالانکہ ریاست کا مذہب سے کوئی لینا دینا ہی نہیں۔‘
یہ تبصرے پاکستان میں سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث کا ایک نمونہ ہیں جو وزیرِ اعظم عمران خان کے اس بیان کے بعد شروع ہوئی جس میں انھوں نے ملک میں بڑھتے ہوئے ریپ کے واقعات کی وجوہات میں ایک وجہ بے پردگی اور فحاشی کو قرار دیا تھا۔
ادھر برطانوی میڈیا میں عمران خان کے اس بیان سے متعلق خبریں چھپنے کے بعد ان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ سمتھ نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ وہ امید کرتی ہیں کہ عمران خان کی بات کا غلط حوالہ دیا گیا ہے یا غلط ترجمہ کیا گیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘جس عمران کو میں جانتی تھی وہ تو کہتا تھا کہ مرد کی آنکھوں پر پردہ ڈالنا چاہیے ناکہ عورت پر’۔
اس سے پہلے پاکستان میں کئی معروف خواتین سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں نے وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان سے بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور کئی حلقوں نے ان سے معافی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور ویمن ایکشن فورم سمیت انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کی طرف سے جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں پر ریپ کے مقدمات رپورٹ ہونا نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں کے وزیر اعظم کی طرف سے اس طرح کا بیان ’ریپ کا شکار ہونے والی خواتین اور ان کے خاندان کے لیے ان کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہے‘۔ مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم کے بیان سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے ذمہ دار اس جرم کا ارتکاب کرنے والے نہیں بلکہ وہ خود اس کی ذمہ دار ہیں۔
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے ایسا بیان دیا گیا ہے بلکہ یہ بیان ریپ اور جنسی تشدد کے بارے میں ان کی سوچ کا عکاس ہے۔
عمران خان نے کیا کہا تھا ؟
تین اپریل کو عوام سے ’براہ راست‘ کال وصول کرنے والے ایک پروگرام میں ایک کالر کی طرف سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ ریپ کے بارے میں حکومت نے سخت قوانین بنائے ہیں لیکن ایسے جرائم کے بڑھنے کی وجوہات کو بھی دیکھنا ہوگا اور ان میں سے ایک وجہ فحاشی کا پھیلنا ہے‘۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے صرف قانون بنانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے پورے معاشرے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا ’معاشرے نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہ معاشرے کی تباہی ہے اور اس کی وجوہات ہیں۔ آج جس معاشرے کے اندر آپ فحاشی بڑھاتے جائیں تو اس کے اثرات ہوں گے۔ ہمارے دین میں کیوں منع کیا گیا ہے؟ پردے کی تاکید کیوں کی گئی ہے؟ تاکہ کسی کو ترغیب نہ ملے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہر انسان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ خود کو روک سکے۔۔۔ آپ معاشرے میں جتنی فحاشی بڑھاتے جائیں گے تو اس کے اثرات ہوں گے۔‘
سیاسی جماعتوں کی جانب سے وزیرِ اعظم کے بیان کی مذمت
پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے وزیر اعظم کے اس بیان کی شدید مذمت کی ہے اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔پارٹی کی ترجمان مریم اورنگزیب کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بیان دے کر عمران صاحب نے ریپ کا شکار ہونے والوں اور ان کے گھر والوں کا دل دکھایا ہے۔
انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی طرف سے دیا گیا یہ بیان ’ہر باشعور شخص کے لیے حیران کن ہے‘۔ پاکستان مسلم لیگ کی ترجمان نے سوال اٹھایا کہ ’کمسن بچوں کو جو ریپ کا نشانہ بنایا جارہا ہے کیا اس کی وجہ بھی فحاشی ہی ہے؟‘
دوسری جانب حزب مخالف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے بھی وزیر اعظم کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے ان کے بیان کو لاہور پولیس کے سابق سی سی پی او عمر شیخ کے بیان کے ساتھ جوڑا ہے جس میں پولیس افسر نے لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی خاتون کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ