اب تو بس کچھ اس طرح سے ہی وطن کی خیر ہو
میتوں کی خیر ہو ، ہر گورکن کی خیر ہو
خوں بہا کر بھی ادا کرنا نہیں اب خوں بہا
عدل کی میزان تیرے بانکپن کی خیر ہو
سر بھلے ہوں یا نہ ہوں بس گردنیں باقی رہیں
خوش رہیں جلاد سب ، دار و رسن کی خیر ہو
جب نگہبانی پر اک صیاد ہی مامور ہے
کیوں نہ پھر میں یہ کہوں میرے چمن کی خیر ہو
دل اگر رکتا نہیں تو اب دھڑکتا بھی نہیں
آنکھ اب لگتی نہیں ، میری لگن کی خیر ہو
ایک طوفاں ہے اور اس کی زد میں دونوں ہیں ابھی
خیر مجھ کو چھوڑیے اُس گُل بدن کی خیر ہو
ہم نے سانسیں روک کر جینے کا ڈھب سیکھا رضی
مرحبا صد مرحبا ، اب اس گھٹن کی خیر ہو
فیس بک کمینٹ