پاکستان اور بھارت نے ایک بار پھر ایک دوسرے پر دہشت گردی، تشدد اور ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کے الزامات عائد کیے ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بھارتی آرمی چیف کی گزشتہ روز پریس کانفرنس میں بیان کیے گئے ’حقائق‘ کو سخت الفاظ میں مسترد کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ پاکستان کو دہشتگردی کا مرکز قرار دینا غلط اور ناجائز ہے۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ انڈین آرمی چیف کا بیان ’انڈین مؤقف کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی ناکام کوشش ہے۔ واضح رہے بھارتی آرمی چیف جنرل اوپندرا دویدی نے دعویٰ کیا تھا کہ (مقبوضہ )کشمیر میں 2024 میں مارے گئے 73 دہشت گردوں میں سے 60 فیصد پاکستانی تھے جبکہ اس وقت جو دہشتگرد سرگرم ہیں ان میں 80 فیصد پاکستانی ہیں۔ اس طرح بھارتی فوج کے سربراہ نے یہ سرکاری پوزیشن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں آزادی کے نام پر جاری جد و جہد کا مقامی آبادی کی سیاسی خواہشات سے تعلق نہیں ہے بلکہ ہمسایہ ملک کی مداخلت بلکہ وہاں سے دہشت گردوں کو بھارتی علاقے میں بھیجنے کی وجہ سے اس قسم کی سرگرمیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔
بھارتی حکومت سیاسی طور سے ایسا بیانیہ بناتی رہی ہے تاکہ پاکستان پر سفارتی دباؤ قائم رہ سکے اور دو طرفہ بات چیت کا راستہ روکا جاسکے۔ البتہ بھارتی فوج کی طرف سے سیاسی بیان بازی کا حصہ بننے سے صورت حال پیچیدہ اور مشکل ہوجاتی ہے۔ اس تناظر میں بھارتی آرمی چیف کا بیان غیر ضروری اور کسی حد تک حقائق مسخ کرنے کی کوشش ہے۔ کیوں کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف رہنے والے لوگوں کا رہن سہن اور بول چال ایک جیسی ہے۔ ان لوگوں میں تخصیص ممکن نہیں ہوسکتی۔ اور نہ ہی کبھی بھارت نے کسی نام نہاد دہشت گرد کے مارے جانے کے بعد متعلقہ شخص کی شناخت پاکستان سے کرانے یا اس کی لاش پاکستان کے حوالے کرتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ یہ شخص پاکستانی تھا لیکن بھارت میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ یوں بھی ماہرین کا عام طور سے تجزیہ ہے کہ بھارت کی طرف سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار کی غیر جانبدارانہ تصدیق ممکن نہیں ہے۔
پاکستان اور بھارت جنوبی ایشیا کے اہم ممالک ہیں لیکن دونوں ملک اپنی غربت اور متعدد مسائل کے باوجود ایک دوسرے کو دشمن قرار دے کر قیمتی قومی وسائل فوجی تیاریوں اور اسلحہ کی خریداری پر صرف کرتے ہیں۔ سرحد کے دونوں طرف کے علاوہ عالمی سطح پر ہونے والے مباحث میں یہ واضح کیا جاتا رہا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت اس سطحی اور بے مقصد ضد و سخت گیر سیاسی پوزیشن سے اجتناب کرسکیں تو جنوبی ایشیا میں نہ صرف امن کی ضمانت فراہم ہوسکتی ہے بلکہ باہمی تعلقات بحال ہونے سے تجارتی سرگرمیوں کے ذریعے معاشی بحالی کا سلسلہ بھی شروع ہوسکتا ہے۔ لیکن پاکستان اور بھارت کی حکومتوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان زمینی حقائق کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ ایک طرف اسلحہ کی خریداری پر اربوں روپے صرف کیے جاتے ہیں تو دوسری طرف عوامی جذبات کو ابھار کر نفرت، ہیجان اور دشمنی کا راستہ ہموار کیا جاتا ہے۔ جدید دنیا میں ان طریقوں کی گنجائش نہیں ہے۔ دنیا تیزی سے علاقائی تعاون اور ایک دوسرے پر انحصار کے ذریعے مل جل کر ترقی کے راستے پر گامزن ہے لیکن دنیاکی آبادی کا تقریباً بیس فیصد ہونے کے باوجود، پاکستان اور بھارت سطحی سیاسی نعرے بازی اور سنسنی خیزی سے آگے بڑھنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
یوں تو پاکستان اور بھارت کویکساں طور سے باہمی تنازعات ختم کرنے کے لیے ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے لیکن بھارت آبادی، وسائل اور اثر و رسوخ کی بنا پر ایک بڑا ملک ہے۔ اس پر برصغیر کی تقسیم کے وقت کشمیر کے معاملہ پر پیدا ہونے والے تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے پہل کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں بھارت میں بی جے پی کی حکومت کے دور میں مقامی مسلم آبادی کو تنہا کرنے اور ہندو توا کی بنیاد پر اکثریتی آبادی کو سیاسی طور سے متحرک کرنے کے لیے پاکستان دشمنی کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر اختیار کیا گیا۔ حالانکہ بڑے اور مستحکم ملک کے طور پر بھارتی سیاسی لیڈروں کی سوچ اور حکمت عملی میں سطحیت کی بجائے بلوغت نمایاں ہونی چاہئے تاکہ روشن مستقبل کے لیے پالیسی بنائی جا سکے۔ لیکن بدقسمتی سے دنیا کے بیشتر دیگر ممالک کی طرح بھارت میں بھی قیادت مقبول نعروں کا سہارا لے کر سیاسی فائدے توحاصل کرنا چاہتی ہے لیکن مسائل کی بنیاد کو سمجھ کر ان کے حل کے لیے کوئی دوررس اقدام کرنے پر راضی نہیں ہوتی۔
اسی لیے گزشتہ ایک دہائی کے دوران بھارت نے نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں عوامی خواہشات کو دبانے کے لیے تمام قانونی اور عسکری ہتھکنڈے اختیار کیے بلکہ ملک بھر میں اقلیتی عقائد کے خلاف نفرت اور ہیجان کا ماحول پیدا کیا گیا۔ مسلمان چونکہ بھارت میں سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں اور ہندو انتہا پسند گروہ انہیں اپنے اثر و رسوخ اور سیاسی عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں، اس لیے انہیں خاص طور سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال منعقد ہونے والے انتخابات کے دوران اپنی تقاریر میں نہایت ڈھٹائی سے عقیدے کی بنیاد پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا اور نفرت کا پیغام عام کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ بدقسمتی سے یہ طرز عمل اپنی غرض و غایت اور مقاصد میں، دنیا بھر میں ابھرنے والی دائیں بازو کی انتہاپسند قومی تحریکوں سے مختلف نہیں ہے۔ اسی لیے معاشرے و سماج کے علاوہ خطے اور علاقائی تعلقات پر بھی اس رویہ کے منفی اور غیر پیداواری اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت جیسے بڑے ملک کی فوج کا سربراہ بھی اپنی سالانہ پریس کانفرنس میں غیر مصدقہ معلومات کو حقائق پرمبنی دعویٰ بنا کر پیش کرتاہے ۔ اس طرح نفرت و تعصب کا وہی پیغام عام کرنے کا سبب بنا ہے جو بھارتی لیڈروں کی طرف سے عام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پاکستان نے بھی اپنی طرف سے کبھی بھارت کے ساتھ تعلقات کو تعمیری انداز میں حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور غیر جمہوری نظام کی وجہ سے خارجہ امور کے بیشتر فیصلے عسکری قیادت کی مرضی و منشا سے طے پاتے رہے ہیں۔ خاص طور سے علاقائی تعلقات میں فوجی لیڈروں کی رائے تقریباً فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ اس وقت بھی بھارت یا افغانستان کے حوالے سے ملکی پالیسی پارلیمنٹ یا وفاقی کابینہ میں طے ہونے کی بجائے جی ایچ کیو کی حکمت عملی کے مطابق ہی طے پاتی ہے۔ اسی لیے ا ن میں مصالحت اور وسیع تر عوامی مفاد کی بجائے وقتی اضطراری کیفیت حاوی رہتی ہے۔ اس کے باوجود دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی عناصر کی طرف سے بھارت کے خلاف نفرت انگیز اور اشتعال پھیلانے والی باتیں نہیں کی جاتیں۔ پاکستانی سیاسی لیڈر متفقہ طور سے مصالحت اور بھارت کے ساتھ بہتر دوستانہ تعلقات کی بات کرتے ہیں۔ البتہ فوج کے علاوہ مذہبی انتہاپسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث یہ نقطہ نظر پزیرائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ دوسری طرف بھارت کی انتہا پسند حکومت بھی پاکستانی لیڈروں کی طرف سے معتدل اور خیر سگالی کے مصالحانہ رویہ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔ بی جے پی کے دور حکومت میں بھارتی حکومتی لیڈر عام طور سے انتہاپسندانہ رویہ کا اظہار کرتے دیکھے گئے ہیں۔
حال ہی میں بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ نے منگل کو ایک بیان میں آزاد کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر قبضہ کیے بغیر بھارت مکمل نہیں ہوسکتا۔ بظاہر یہ بیان آزاد کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کے گزشتہ ہفتے دیے گئے اس بیان کا ’جواب ‘ تھا کہ ان کی حکومت اپنے تمام وسائل مقبوضہ کشمیر سے بھارت کو نکال باہر کرنے پر صرف کرے گی۔ ان دونوں بیانات کی سطحیت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان تنازعہ کو کس غیر ذمہ داری سے بیان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آزاد کشمیر کی حکومت اپنے بجٹ کے لیے وفاقی حکومت کی امداد کی محتاج ہے اور اس کے پاس کوئی عسکری قوت نہیں ہے لیکن اس کا وزیر اعظم بھارت کو للکارنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اسی طرح راج ناتھ کو بخوبی علم ہے کہ کشمیر ایک عالمی طور سے تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے۔ اس کی حیثیت کے بارے میں مل جل کر ہی کوئی حل نکالا جاسکتا ہے۔ اگر پاکستان مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو بھارت بھی پاکستان کے زیر انتظام کوئی علاقہ طاقت کے زور پر ہتھیانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
دونوں ہمسایہ ملکوں کی حکومتیں عوام کو رجھانے کے لیے پر جوش اور غیر حقیقی بیانات دینے کی بجائے اپنے عوام کی خواہشات اور مسائل پر توجہ مبذول کریں۔ تاکہ اسلام آباد اور نئی دہلی کی قیادت مل بیٹھ کر تنازعہ کشمیر سمیت تمام مسائل حل کرسکے اور علاقائی تعاون کے نئے اور امید افزا باب کا آغاز ہوسکے۔ اس کی بجائے اگر بھارت جیسا بڑا ملک اپنے آرمی چیف کو سیاسی ترجمان بنا کر مسائل حل کرنے کی کوشش کرے گا تو اس سے پاکستان کی صحت پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن بھارت کی اپنی سفارتی پوزیشن کمزور ہوگی۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوے دار ہے اور چین کی برابری کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس کی کل صلاحیت اگر پاکستان کو دھمکانے پر صرف کی جائے گی تو اس سے بھارتی حکومت کا بودا پن اور کمزوری عیاں ہو گی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ