اسلام آباد : پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے جی سیون تھری میں لال مسجد سے منسلک جامعہ سیدہ حفصہ پر لہرایا گیا اماراتِ اسلامیہ افغانستان کا پرچم اسلام آباد انتظامیہ نے اتروا دیا ہے۔
جامعہ حفصہ پر 19 اگست کی صبح اماراتِ اسلامیہ کے چار سے پانچ پرچم لگائے گئے تھے۔ لال مسجد شہدا فاؤنڈیشن کے ترجمان کے مطابق، پرچم لگنے کے کچھ دیر بعد اسلام آباد کی انتظامیہ کے افسران بمع ڈپٹی کمشنر جامعہ حفصہ مذاکرات کرنے پہنچے اور ’درخواست‘ کی کہ یہ جھنڈے ہٹا دیے جائیں۔ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ اطلاع ملنے پر اسلام آباد پولیس و ضلعی انتظامیہ کی ٹیم نے جھنڈا اتروا دیا ہے۔
لال مسجد میں مبینہ عسکریت پسندوں کی موجودگی کے خلاف سنہ 2007 میں فوجی آپریشن کیا جا چکا ہے۔واضح رہے کہ ایک روز پہلے پشاور کے علاقے حیات آباد میں افغانستان کا پرچم لہرانے پر نو افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔پولیس کے مطابق کارروائی میں حیات آباد فیز تھری سے نو افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ افغانستان کے دو پرچم بھی ضبط کر لیے گئے لیکن اسلام آباد میں جامعہ حفصہ کی مسجد پر طالبان کا جھنڈا لہرانے پر تاحال نہ کوئی پرچہ کاٹا گیا ہے اور نہ ہی کوئی کارروائی کی جا رہی ہے۔
لال مسجد کے ترجمان ہارون غازی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ خطیب لال مسجد مولانا عبدالعزیز نے جمعے کو فتحِ مبین کے نام سے کانفرنس رکھی گئی تھی اور اس کی تیاری کے لیے پرچم لگائے گئے تھے۔اُنھوں نے بتایا کہ اس کانفرنس کا مقصد افغان طالبان سے یکجہتی کا اظہار کرنا تھا۔ تاہم اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ یہ کانفرنس سیکیورٹی محاصرے کے باعث نہیں ہو سکی۔
لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی موجودہ صورتِ حال کیا ہے؟
اسلام آباد کی لال مسجد سیکٹر جی سکس میں آبپارہ مارکیٹ کے قریب ہے اور گزشتہ ایک برس سے زائد عرصہ سے اس مسجد سے منسلک سڑک کو خاردار تاریں اور سیمنٹ کے بلاکس رکھ کر بند کر دیا گیا ہے۔اس مسجد میں پانچ وقت نماز ادا کرنے کی اجازت ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی اجتماع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کو کچھ عرصہ قبل اس مسجد میں خطیب کے عہدہ سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ لیکن اب بھی وہ اس مسجد میں اکثر نمازِ جمعہ کا خطبہ دینے کے لیے آ جاتے ہیں اور حکومت انہیں روکنے کی کوشش کرتی ہے۔
جامعہ حفصہ لال مسجد آپریشن سے پہلے مسجد کے ساتھ ہی منسلک تھا اور حکام کے مطابق سرکاری زمین پر بغیر اجازت اس کی تعمیر کی گئی تھی جس کے باعث اسے منہدم کر دیا گیا تھا۔ بعد میں مدرسہ میں مقیم خواتین کے لیے عارضی طور پر سیکٹر جی سیون تھری فور میں ایک مسجد سے منسلک خالی زمین پر انتظام کیا گیا لیکن اب وہاں غیر قانونی طور پر کئی منزلہ عمارت بن چکی ہے۔ اس وقت بھی جامعہ حفصہ میں سیکڑوں طالبات مقیم ہیں۔
جامعہ حفصہ اور لال مسجد کی طرف جانے والے راستوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات رہتی ہے۔ جامعہ حفصہ جس جگہ قائم کیا گیا ہے وہاں سرکاری ملازمین کے کوارٹرز بنے ہوئے ہیں۔ ان گھروں کو جانے والی گلیوں میں پولیس کے جوان 24 گھنٹے ڈیوٹی پر موجود رہتے ہیں۔ کسی کو آنے جانے سے روکا نہیں جاتا لیکن اگر کسی مقام پر جلوس جانے کا خدشہ ہو تو خاردار تاریں لگا کر راستوں کو بند کر دیا جاتا ہے۔
سال 2007 میں اسلام آباد کی لال مسجد کا معاملہ سامنے آیا جب اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں قائم مساجد کو منہدم کرنے کے معاملہ پر لال مسجد انتظامیہ اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان تنازع ہو گیا۔چند دنوں میں اس تنازع نے عالمی سطح کے تنازع کی شکل اختیار کر لی جس میں اس وقت کی فوجی حکومت کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے مسجد انتظامیہ کے خلاف فوجی آپریشن کی منظوری دی۔مبصرین کے مطابق اگرچہ اس وقت حکومت میں شامل سیاست دانوں نے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی لیکن تنازع شدت اختیار کرنے کے باعث فوجی آپریشن ہوا جس میں مولانا عبدالرشید غازی سمیت مبینہ طور پر درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔ اس آپریشن کے دوران بعض فوجی اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔ آپریشن کے دوران مولانا عبدالعزیز کو مسجد سے فرار ہونے کی کوشش کے دوران گرفتار کر لیا گیا تھا۔