زبان زدِ خاص و عام یہی ہے کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور ہر گزرتے دن اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ معاملات ناقابل واپسی مقام کی جانب بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اخباری بیان بازی کے بعد بند کمروں میں اجلاس شروع ہوئے، پریس کانفرنسیں ہوئیں، الگ الگ سواریوں کے مسافر ایک ٹرین پر چڑھ گئے۔ تنظیم سازی ہوئی، احتجاجی پروگرام پر اتفاق رائے ہوا اور اب اس پر عملدرآمد کا مرحلہ شروع ہو گیا۔ بات اب کمروں سے شاہراہوں تک آگئی ہے۔ گفتگو کا انداز پہلے ہی قابل رشک نہیں تھا اب اس میں مزید بدتہذیبی کا تڑکا لگنے لگا ہے۔ الزام سے دشنام تک کا سفر دیکھتے ہی دیکھتے طے ہو گیا ہے۔ فریقین کا مقصد ایک ہی دکھائی دیتا ہے کہ بس ایک دوسرے کی چیخیں نکلوا دی جائیں۔
لاہور میں اپوزیشن کی بڑی اور متحرک جماعت مسلم لیگ (ن) نے جلسہ کیا تو لب و لہجہ ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کا تھا۔ جلسہ ختم ہوتے ہی حکمران جماعت کے خورد و کلاں جوابی حملے پر کمر بستہ ہو گئے۔ شہباز گل، فیاض چوہان، ان کے چھوٹے کپتان وزیر اعلیٰ عثمان بزدار، وفاقی وزراء شیخ رشید، غلام سرور اعوان سبھی کی توپیں گولہ باری کرنے لگیں۔
کہا گیا کہ مسلم لیگ (ن) اپنے گڑھ لاہور میں ناکام ہو گئی۔ صرف ایک ہزار لوگوں کی ”جلسی“ کر سکی، عوام نے لیگی بیانیہ مسترد کر دیا ہے۔ وہ کپتان کے بیانیہ کے ساتھ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یار لوگ کہتے ہیں کہ اگر یہ جلسہ نہیں جلسی ہوتی اور عوام نے شرکت نہ کی ہوتی تو وزیروں، مشیروں کی پوری فوج میدان میں اتارنے کی ضرورت کیا تھی؟ حکمرانوں کو اتنی تو سوجھ بوجھ ہونی چاہئے کہ بعض اوقات ردعمل سے عمل کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے،جس طرح حکومت نے اپنے معتوب نوازشریف کی حالیہ تقاریر براہ راست دکھانے کی اجازت دے کر بڑے دل گردے کا مظاہرہ کیا اور داد سمیٹی، اسی طرح جلسیوں (بقول ان کے اپنے) پر ایک خندۂ استہزا ہی کافی تھی۔
جہاں تک میاں صاحب کی باغیانہ تقریروں کا تعلق ہے تو لگتا ہے کہ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ اس سے پہلے ایم کیو ایم کے بانی کی تقاریر ناقابل برداشت ہوئی تھیں تو ان کو دکھانے پر پابندی لگا دی گئی تھی،مگر اس کے لئے قانون کا راستہ اختیار کیا گیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ میں حکومت نے ثبوتوں کے ساتھ درخواست دائر کی اور ان تقریروں کو ملک دشمن قرار دے کر پابندی لگا دی گئی۔
اندر کی باتوں سے با خبر تجربہ کار وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید اس حوالے سے بار بار پیشگوئی کرتے چلے آ رہے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) میں سے جلد ہی (ش) لیگ نکلے گی۔ صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان مسلم لیگ(ن) سے (م) لیگ الگ ہونے کی ”خوشخبری“ دے چکے ہیں۔ حکومتی اکابرین کی خواہش اور کوشش اپنی جگہ، مگر الطاف حسین اور نوازشریف کی تقاریر میں بظاہر کافی فرق ہے۔ الطاف حسین نے مختلف اوقات میں جو فرمودات جاری کئے، ان میں (1) تقسیم ہند (قیام پاکستان) کو تاریخ عالم کی سب سے بڑی حماقت قرار دیا (2) اپنے جلسے میں پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوائے (3) پاک فوج کے جرنیلوں کی بار بار تضحیک کی (4) ہندوستان سے مہاجرین (اردو بولنے والوں) کو واپس ہندوستان میں آباد کرنے کا مطالبہ کیا (5) پاکستان کی شہریت ترک کر کے خود اپنے لئے بھارتی شہریت کا مطالبہ کیا (6) اسلام ترک کر کے ہندو بننے کا اعلان کیا اور مورتیاں سامنے رکھ کر ان کی عبادت کی۔
اس کے برعکس میاں نوازشریف نے ان میں سے کوئی ایک کام بھی نہیں کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ابھی تک حکومت نے ان کی تقاریر پر پابندی کے لئے عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔ البتہ پیمرا نے ذرائع ابلاغ کو سزا یافتہ مجرموں کی تقاریر براہ راست دکھانے سے روک دیا ہے، تاہم اس ہدایت نامے میں میاں نوازشریف کا نام نہیں لکھا گیا۔ ابھی پیمرا اور حکومت کو سابق وزیر اعظم کی کسی ایسی تقریر کا انتظار ہوگا جس میں وہ الطاف حسین جیسی ”حماقت ر ندانہ“ کا مظاہرہ کر ڈالیں۔ اب کیا کیا جائے کہ نوازشریف تو سرے سے ان میں شمار ہی نہیں ہوتے اور الطاف حسین اس کیفیت سے نکلتے نہیں۔ اس کے باوجود اگر قائد مسلم لیگ (ن) کی تقاریر پر پابندی لگائی جاتی ہے یا لگوا دی جاتی ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایک تو سوشل میڈیا اس کمی کو کافی حد تک پورا کر دے گا،دوسرے مریم نواز مقبول متبادل کے طور پر موجود ہیں، اگر حکومت نے پوری طرح ”مکوٹھپنا“ ہے تو پابندی کے علاوہ (ش) لیگ کی طرح (م) لیگ کو بھی پابند سلاسل کرنا ہوگا، مگر اس میں ملکی اور عالمی سطح پر مشکلات بہت ہوں گی:
ہارنے میں اِک انا کی بات تھی
جیت جانے میں خسارہ اور ہے
(بشکریہ: روزنامہ پاکستان)