وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات میں اتفاق کیا گیا ہے کہ عدالتی امور میں انتظامی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط کی تحقیقات کے لیے تحقیقاتی کمیشن بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ یہ معاملہ اب کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا۔ چیف جسٹس کی طرف سے عدالتی خود مختاری کی ضمانت اور خط لکھنے والے ججوں سے ملاقات کے بعد عدلیہ کی خود مختاری کے حوالے سے اٹھنے والے شبہات کسی حد تک کم ہوئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس سےملاقات کے دوران میں عدلیہ کی خودمختاری کے لیے مناسب قانون سازی کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ دریں اثنا ججوں کے خط کے بعد عدلیہ کی آزادی اور ججوں کی سلامتی کا معاملہ مسلسل زیر بحث ہے۔ پاکستان بار کونسل اور انسانی حقوق کمیشن نے اسے ایک سنگین معاملہ قرار دیا ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ہی اس معاملہ کا یہ پہلو بھی زیر غور ہونا چاہئے کہ کیا اعلیٰ عدلیہ میں بعض ججوں کے سیاسی خیالات بھی عدلیہ کے وقار اور خود مختاری کو کمپرومائز کرنے کا سبب بن رہے ہیں؟
عدالتی امور میں مداخلت کے حوالے سے کوئی بھی تحقیقات یا قانون سازی اس وقت تک شفاف اور نتیجہ خیز نہیں ہوسکتی جب تک اعلیٰ عدالتوں میں کام کرنے والے تمام ججوں کے اپنے ہاتھ بھی مکمل طور سے صاف نہ ہوں۔ فیصلوں میں قانون و شواہد سے زیادہ ذاتی پسند ناپسند اور سیاسی وابستگی کے اثرات کی بحث پاکستان میں نئی نہیں ہے۔ ملک کے سابق دو جسٹسوں ثاقب نثار اور عمر عطا بندیال کے دور میں ہونے والے متعدد فیصلوں کے بارے میں یہ رائے موجود رہی ہے کہ یہ احکامات قانون کی بجائے سیاسی رائے یا دباؤ کی وجہ سے جاری ہوئے تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں نے اپنے خط میں حال ہی میں ریٹائرد جج کے عہدے پر بحال ہونے والے جسٹس شوکت صدیقی کے معاملہ کا حوالہ دیا ہے اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ عدالتی امور میں مداخلت کے جن واقعات کا حوالہ شوکت صدیقی نے دیا تھا، کیا اب بھی وہ طریقے جاری تو نہیں ہیں۔ شوکت صدیقی کو تقریباً 7 سال کی قانونی جد و جہد کے بعد 22 مارچ کو سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ سے ریلیف ملا ہے۔ البتہ جولائی 2018 میں جب انہوں نے راولپنڈی بار کونسل میں خطاب کرتے ہوئے آئی ایس کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر مداخلت کے الزامات عائد کیے تھے تو عمران خان کی حکومت نے انہیں جج کے عہدے سے فارغ کرنے کے لیے ریفرنس بھیجنے میں زیادہ وقت نہیں لیا تھا۔ اور اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے فوری طور سے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلا کر انہیں آئی ایس آئی پر الزام لگانے کی وجہ سے ’مس کنڈکٹ‘ کا مرتکب قرار دیا تھا۔ اسی سال اکتوبر کے دوران میں سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر صدر عارف علوی نے انہیں عہدے سے برطرف کردیا تھا۔ اس برطرفی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کے کسی ساتھی نے ان سے اظہار یک جہتی کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ شوکت صدیقی اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج تھے اور نومبر2018 میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہونے والے تھے۔ البتہ ان کے چیف جسٹس محمد انور کاسی نے بھی شوکت صدیقی کاساتھ دینے سے انکار کیا تھا۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کے لیے یہ انتظار کرنے کی زحمت بھی نہیں کی کہ شوکت صدیقی سے پہلے بھی متعدد ججوں کے خلاف شکایات موجود تھیں۔ سابقہ شکایات پر غور کیے بغیر کیوں کر ایک جج کے خلاف ترجیحی بنیاد پر کارروائی کی گئی۔ جسٹس (ر) ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل کی عجلت سے ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ، ججوں کی طرف سے ملکی ایجنسیوں کی مداخلت کے بارے میں کسی پبلک پلیٹ فارم پر بات کرنے کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں تھی۔ سپریم کورٹ نے شوکت صدیقی کیس میں22 مارچ کو دیے گئے فیصلہ میں اس اصول کو تبدیل کیا ہے۔ عدالتی فیصلہ کے مطابق اگر کوئی جج درست بات کررہا ہے اور اسے ثابت کرسکتا ہے تو اسے اس کی سزا نہیں ملنی چاہئے لیکن اگر وہ کسی تقریر میں بعض لوگوں کے خلاف غلط بیانی کرتا ہے تو اسے ضرور سزا کا مستحق سمجھا جائے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں یہ طے کیا گیا ہے کہ 2018 میں سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت صدیقی پر عائد الزامات کی تحقیقات کے بغیر ہی انہیں برطرف کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو درست نہیں تھا۔ یہ معاملہ چونکہ ایک جج کی غلط برطرفی کے خلاف تھا لہذا سپریم کورٹ کے فیصلہ میں اب ان الزامات کی تحقیقات کی بات نہیں کی گئی۔ البتہ یہ واضح کیا گیا تھا کہ شوکت صدیقی نے اپنی تقریر میں کسی ادارے پر تنقید نہیں کی تھی بلکہ مخصوص افراد کا نام لے کر الزام لگایا تھا کہ اس شخص نے ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔
شوکت صدیقی نے اپنی تقریر میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) فیض حمید پر نواز شریف کے مقدمات میں پسندیدہ فیصلہ کروانے کے لیےدباؤ ڈالنے کا الزام لگایا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے6 ججوں کا کہنا ہے کہ اب یہی کوشش عمران خان کے خلاف مقدمات میں کی جارہی ہے۔ لیکن اس خط میں کسی ادارے کے کسی خاص افسر کا نام لے کر کوئی بات نہیں کی گئی بلکہ عمومی تاثر کی بات کرتے ہوئے تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ خط میں ایک معاملہ کا ذکر ضرور ہے جس میں عمران خان کے خلاف ایک درخواست کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں تین رکنی بنچ کے دو ججوں نے چیف جسٹس کی رائے سے اختلاف کیا لیکن خط کے مندرجات کے مطابق انہیں بعد میں شدید دباؤ کا سامناکرنا پڑا۔ البتہ یہ بتانے سے گریز کیا گیا ہے کہ یہ دباؤ کس نے ڈالا اور متعلقہ شخص نے کیا دھمکی دی۔ اس حد تک یہ ایک عمومی بیان ہے جس میں عدلیہ کے ججوں کے حالات کار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
البتہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ خط کے مندرجات سے واضح ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے یہ 6 جج چیف جسٹس عامر فاروق کی حکمت عملی سے متفق نہیں ہیں اور انہیں ججوں کی حفاظت نہ کرنے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ خط میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 10 مئی 2023 کو انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو آئی ایس آئی کی مداخلت کے بارے میں خط لکھا تھا لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ لیکن اسی خط کے اگلے ہی پیرے میں بتایا گیا ہے کہ اسی معاملہ میں ان ججوں نے محض 9 دن بعد 19 مئی کو چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کرکے اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔ گویا ان ججوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو اپنے خط پر کارروائی کے لیے صرف ایک ہفتے کی مہلت دی اور یاددہانی کروانے اور اصلاح احوال کے لیے کوئی حکمت عملی بنانے پر زوردینے کی بجائے وہ براہ راست سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس پہنچ گئے۔ ظاہر ہے جب معاملہ چیف جسٹس پاکستان کے پاس چلا گیا تو اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس کیا کارروائی کرسکتا تھا۔ججوں کے شکایت نامہ کے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی شکایت درحقیقت چیف جسٹس عامر فاروق کے خلاف ہے۔ حیرت انگیز طور پر عمران خان اور تحریک انصاف بھی کافی عرصہ سے جسٹس عامر فاروق کے خلاف مسلسل عدم اعتماد کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے کسی مقدمہ میں جسٹس عامر فاروق شامل نہ ہوں۔ انہوں نے یہ درخواست اب تک منظور نہیں کی ہے۔ البتہ کسی چیف جسٹس کی جانبداری پر احتجاج ، ججوں کے کام میں ایجنسیوں کی مداخلت سے بالکل مختلف اور علیحدہ معاملہ ہے۔ ان دو امور کوخلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط میں اس معاملہ کو پراسرار طریقے سے ملا دیا گیا ہے جس سے یہی تاثر قوی ہوتا ہے گویا جسٹس عامر فاروق ، عمران خان کے معاملہ میں سیاسی طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے شکایت کرنے والے جج حضرات درحقیقت اپنی سیاسی وابستگی کا اظہار کررہے ہیں۔ اس معاملہ پر اعلیٰ عدلیہ کے ہر جج کو خود اپنے ضمیر کے مطابق طریقہ کار طے کرنا چاہئے ورنہ عدالتوں کی خود مختاری اور آزادی کو دیگر اداروں کی بجائے خود عدالتوں کے اندر سے ہی خطرات لاحق رہیں گے۔
اس دوران میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کے خط کی اوپن کورٹ تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست بھی دائر کی گئی ہے جس میں سپریم کورٹ سے بااختیار کمیشن تشکیل دے کر انکوائری کرانے کی استدعا کی گئی ہے۔ یہ آئینی درخواست میاں داؤد ایڈووکیٹ نے دائر کی ہے جس میں موقف اختیار کیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کا سپریم کورٹ کے ججوں کو خط ایک طے شدہ منصوبہ لگتا ہے۔درخواست میں اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ’ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے اشارے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں نے خط لکھا ہے۔ آئی ایس آئی کی عدالتی کارروائی میں مداخلت کے خلاف ججوں کے سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے نے سارا معاملہ مشکوک کر دیا ہے۔درخواست کے مطابق چھ ججوں نے اپنے خط میں عمران خان کے صرف ایک مقدمے کی مثال پیش کی ہے تاہم اس کا بھی واضح حوالہ اور ثبوت نہیں دیا گیا۔ یہ خط عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ ججوں کا خط ریلیز ہوتے ہی تحریک انصاف نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور چیف جسٹس پاکستان کے خلاف مہم چلانا شروع کر دی۔ ایک برس کے دوران آئی ایس آئی کی مداخلت کے بارے میں ججوں کی کوئی خط و کتابت کسی کو لیک نہیں ہوئی لیکن یہ خط لیک ہوگیا۔ ان سارے حالات کی کڑیاں ملائیں تو لگتا ہے کہ ججوں نے تحریک انصاف کا بیانیہ بنانے کیلئے کردار ادا کیا ہے‘۔
اس پٹیشن سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت اعلیٰ عدالیہ کے ججوں میں سیاسی تقسیم کے حوالے سے شدید اندیشے اور شبہات موجود ہیں۔ یہ صورت حال اعلیٰ عدلیہ کی خود مختاری کے لیے خوش آئیند نہیں ہے۔ خط بھیجنے والے ججوں نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے جوڈیشل کنونشن بلانے کی تجویز دی ہے تاکہ دیگر عدالتوں کے جج بھی اپنی کہانیاں سناسکیں۔ اس تجویز سے تو یہی عندیہ ملتا ہے کہ ایک ایسا بیانیہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہےجس سے یہ تاثر قوی ہوجائے کہ ملک کے انٹیلی جنس ادارے عمران خان کو عدالتوں کے ذریعے سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے درپے ہیں۔ تاہم عدلیہ اگر کسی سیاسی بیانیہ میں آلہ کار بنے گی تو اس عمل میں سب سے پہلے اس کی اپنی خود مختاری اور وقار پر آنچ آئے گی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ