تحریک انصاف کو خطرہ باہر سے نہیں اندر سے ہے ،جب بھی پارٹی کا زوال ہوگا تو اسباب اور محرکات اندرونی ہونگے ۔ یہ جملے عمران خان نے پارٹی میں دھڑے بندی سے پریشان ہوکر کئی بار دوہرائے ،شاہ محمود قریشی اور جہانگیرترین کے شدتِ اختلاف میں تو برملا اس کا اظہار بھی کیا لیکن پارٹی کے اکابرین اس نازک بات کو آج تک نہیں سمجھ سکے ۔ یہ اختلافات ہر دور میں رہے اور سیاسی جماعتوں میں اختلافات ہوا بھی کرتے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جو اپنے من پسند فیصلے نہ ہونے پر اپنی پارٹی میں سیاسی مخالف کے فیصلوں کو بھی کامیاب نہیں ہونے دیتی جس کی وجہ سے پارٹی اور عمران خان دونوں کے بیانیے کو نقصان پہنچتا ہے لیکن انفرادی طور پر “انا” کو تسکین ضرور پہنچتی ہیں!
اسی ایک رویے کی بنیاد پر تحریک انصاف کی بائیس سالہ جدوجہد تیس ماہ میں خراب ہوگئی جبکہ عوام بھی بیزار نظر آرہے ہیں ۔وزیراعظم ایک جانب پی ڈی ایم کا بیانیہ زمین بوس کرنے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ دوسری جانب انہی کی پارٹی میں موجود دھڑے اپوزیشن کو مضبوط کرنے میں جُتے ہوئے ہیں اس کی ایک زندہ مثال وفاقی دارلحکومت میں مئیر کے انتخابات ہیں۔ یہ امر بھی حقیقت ہے کہ ن لیگ کی جانب سے مئیر کی انتخابات کے لیے شارٹ لسٹ کیے گئے امیدواروں میں بذریعہ قرعہ اندازی سید ظہیرالدین شاہ کا نام نکلا لیکن انجم عقیل نے زبردستی پرچی اُٹھا کر پیر عادل کے نام کا اعلان کردیا جس پر یو سی چئیرمینز نے فیصلہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے آزاد الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ۔۔لیکن اس معاملے کو ختم کرنے کے لیے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری رات گئے تک یوسی چئیرمینز کو مناتے رہے اور آخر کار تمام چئیرمین اس بات پر راضی ہوگئے اور اکٹھے انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا اور حد تو یہ ہے کہ آزاد الیکشن لڑنے والے ظہیر شاہ ن لیگی مئیر کے امیدوار پیر عادل شاہ کے پولنگ ایجنٹ بن گے تاکہ خود انتخابات کی نگرانی کرسکیں اور اپنی پارٹی کو جیت سے ہمکنار کروائیں گو کہ اس میں مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی نے بھی اہم کردار ادا کیا ۔
اور دوسری جانب تحریک انصاف کے اندر مئیر کا ٹکٹ لینے کے لیے بھی دوڑ دھوپ جاری تھی راجہ شیراز کیانی اور ملک عامر دونوں مضبوط امیدوار تھے لیکن پارٹی میں موجود اسد عمر مخالف دھڑے نے ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی ٹکٹ نہ دینے کی ٹھانی جس کے لیے ز لفی بخاری،سیف اللہ نیازی اور ڈاکٹر وسیم شہزاد نے پورا زور لگایا۔۔۔اور یوں مئیر کے انتخابات کے لیے ملک ساجد محمود کو امیدوار بنا کر میدان میں اُتارا گیا ۔۔۔جس کو جتوانے کے لیے کسی صورت بھی کام نہیں کیا گیا۔۔۔جبکہ ن لیگ کے دس ووٹ توڑے جاتے تو شاید مئیر تحریک انصاف کا بن جاتا لیکن “انا” کو ٹھیس پہنچتی۔۔۔!
اب ذرا نمبر گیم پر نظر ڈالیں تو کل تہتر ووٹ کاسٹ ہونے تھے جن میں سے انہتر ووٹ کاسٹ ہوئے ن لیگ کے سنتالیس ووٹ تھے جبکہ تحریک انصاف کے چوبیس ووٹ تھے تحریک انصاف کے راجہ ذولقرنین ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے ووٹ نہ ڈال سکے لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف کو چھبیس ووٹ ملے جبکہ ن لیگ کو تینتالیس ووٹ لے سکی ۔۔۔ن لیگ کے تین ووٹ تحریک انصاف کے امیدوار کو ملے جن میں سے قومی امکان ہے کہ تین خواتین نے اپنے ووٹ ن لیگ کے امیدوار کو نہیں ڈالے!
ن لیگ سترہ ووٹوں سے جیتی لیکن اگرتحریک انصاف یک جان ہوکر اور مضبوط امیدوار کو میدان میں اُتارتی اور دس ووٹوں پربھی کام کیا جاتا تو اسلام آباد کا مئیر تحریک انصاف کا بن سکتا تھا لیکن پارٹی میں دھڑے بندی کا کیا ہوتا ذاتی انا کو کیسے سکون ملتا۔۔۔ بس اسد عمر،علی اعوان،راجہ خرم کو نیچا دکھانا ہے بھلے کپتان کی سیاسی جدوجہد اور بیانیے کی ایسی تیسی ہو جائے۔۔۔
آپس کے خلفشار ،اختیارات کی کھینچا دانی،ایک دوسرے کے حلقے پر حکمرانی اور میں نہ مانوں کی ضد نجانے تحریک انصاف کو کہاں لیکر جائے گی۔۔۔
اسلام آباد جیسے شہر میں تینوں ایم این اے تحریک انصاف کے ہیں جہاں اربوں روپے کے کام ہو رہے ہیں وہاں کا بلدیاتی ادارہ دوبارہ (ن) لیگ کا ہوگیا ہے تو سوچیں کل بلدیاتی انتخابات میں کیا ہوگا؟
کیا تحریک انصاف اسی رویے کو اپناتے ہوئے مزید پارٹی نقصان کرتی رہے گی ؟
اگر ن لیگ ،مولانا فضل الرحمن کی جماعت میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ بغاوت ہورہی ہے تو تحریک انصاف کو بھی تو ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے یہاں بھی تو ہر دھڑا ہر گروپ اپنے پسند کے امیدوار کو جتوانا اور میدان میں لانے کی کوشش میں ہے؟
اسدعمر کو کراچی واپس بھیجنے کی ضد میں اپنے قریبی سیاسی ساتھیوں کو نیچا دکھانا کونسی سی عقلمندی ہے؟
خیر یہ تو ظرف کی بات ہے جس کا جتنا ہوگا وہ اُتنا ہی دکھائے گالیکن ایک بات تو طے ہے کہ اگر یہی رویہ رہا تو اگلا مئیر بھی ن لیگ کا ہی ہوگا۔۔۔!!