راولپنڈی الیکشن ٹربیونل کے جج جسٹس عباد الرحمن لودھی نے اثاثوں،ٹیکس اور ذاتی معلومات چھپانے پر شاہد خاقان عباسی،فواد چوہدری،سردار غلام عباس،سمیت متعدد نامور اور روایتی سیاسدانوں کو تاحیات نااہل کرنے کا فیصلہ سنا دیا،شاہد خاقان عباسی کےفیصلے پر جج صاحب نے اپنے دیگر ججز کو اُن کے حلف نامے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھا کہ شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا۔۔۔۔اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے!!! کی عملی صورت میں پہلا پتھر پھینکنے کی کوشش میں اس دہکتی ہوئی آتش نمرودمیں چھوٹے پرندےکی طرح چونچ میں پانی کی چند بوندیں لیکر اس آگ کو بجھانے میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش میں ہوں اگر ہم سب گھر پھونک تماشہ دیکھنے کی کیفیت کا شکار نہ ہو چکے ہوں تو یہ اس معاشرے کے پڑھے لکھے طبقات خاص طور پراُن لوگوں جو ریاست کے بنیادی ستونوں کی راہداریوں میں موجود ہیں پرقوم کی طرف سے ایک قرض ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کو ایک بہتر اورمحفوظ مستقبل دینے کے لئے آج اپنا مثبت اور موثر کردار ادا کریں!جسٹس صاحب مزید لکھتے ہیں کہ افراد اور اقوام کو یہ فیصلہ
کرنا ہوتا ہے کہ کیا انہوں نے صرف حال میں زندہ رہنا ہےیا اپنے آپ کو تاریخ میں بھی امر کرنا ہےاگر ہم نے دوسرے راستے کا چناؤ کرنا ہےتو پھر ہمیں ایسے تمام معاملات سے احترازکرتے ہوئے جن سے ہماری پرواز میں کوتاہی آنے کا اندیشہ ہو اپنے مستقبل کی آنکھوں میں روشنی اور چمک دینے کے لیے اُن عناصر کی سرکوبی کے لیےسامنے آنا ہوگاجنہوں نے اس نظام میں اپنے پنجے بُری طرح
گاڑ رکھے ہیں اور ایسے عناصراگر مقننہ میں ہیں توسوائےاپنے مفاد پر مبنی قانون سازی کےاُن ایوانوں سےعوام کے لیے تازہ ہوا کاکوئی جھونکاباہر نہیں آتاجبکہ انتظامیہ کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے مفلوج کردیا گیا ہےاور عدلیہ کے بارے میں مسلسل اعلانیہ یہ روئیہ اختیار کیا جا رہا ہےکہ عدلیہ کی
جانب سے ملکی معاملات کی اصلاح اور عوامی مفادات کے لیےپسے ہوئے طبقات کے حقوق کا تحفظ کرنا بھی اُن استبدادی طبقات کوگراں گزرتاہے۔۔عدلیہ کےاپنے معاملات بھی اصلاح طلب ہیں اوریہاں سے اگر اُن زور آور اور بظاہر قانون سےماوراء طاقتوں کے خلاف کسی قسم کےکوئی اقدامات اُٹھائے بھی
جاتے ہیں تو اُن اقدامات کی نفی کرنے کے لیے خود ہماری ہی صفوں سے لوگ تیار کھڑے نظر آتےہیں۔میں اس موضوع پر اس وقت مزیدکسی رائے سے اس لیے اجتناب کرہا ہوں کہ افسوس بے شمار سُخن ہائے گفتنی۔۔۔۔خوفِ فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئے!!!لیکن ایک خواہش کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ پسے ہوئے طبقات اوروہ لوگ خطِ غربت سےبھی نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں کو کوئی پتھر تو مہیا کردیا جائے جس سے وہ اپنے سر پھوڑ سکیں اگر ہم نے اُن طبقات
کے راستے میں جواپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیےہمارے ہاں تواتر سےنظام پرقابض چلے آرہے ہیں کوئی سد راہ قائم نہ کی تو کہیں ہماری داستاں بھی گم گشتہ داستانوں کا حصہ نہ بن جائے۔۔۔۔!!
مندرجہ بالا تحریر جسٹس عباد الرحمن کے فیصلہ کا حصہ ہےجس میں انہوں نے اپنے حصے کی شمع جلانے کی کوشش کی۔۔ہر لفظ اپنے اندر درد رکھتا ہے پڑھیے ۔۔پڑھائیے۔۔۔ وکلاء اور ججز کو سنائیے!!!
فیس بک کمینٹ