میں ذاتی طور پر صرف حامی نہیں بلکہ شدید قسم کا حامی ہوں کہ اب جنوبی پنجاب یا اسے کوئی بھی نام دیں علیحدہ صوبہ بن جانا چاہیے کہ وسیب کی مشکلات کچھ کم ہوں، ہم ادھر کے لوگ ایک عرصے سے استحصال کا شکار ہیں۔ نامرادیوں کا شکار ہیں اور ناانصافیوں کو بھگت رہے ہیں۔ اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سب کچھ تب تک ممکن نہیں جب تک تخت لاہور کا حکمران خواہ وہ اس وسیب سے ہی کیوں نہ ہو، صادق آباد سے اٹک تک کی سرزمین کا مالک و مختار ہے۔
میں نہ تو لسانیات کا ماہر ہوں اور نہ ہی مجھے تاریخ دان ہونے کا دعویٰ ہے لیکن جو کچھ میرے سامنے ہو رہا ہے اس کا گواہ بھی ہوں اور عینی شاہد بھی۔ یہ معاملہ کبھی کا اس نوبت تک آگیا ہوتا جہاں اب پہنچا ہے لیکن اسے خراب کرنے میں زیادہ ہاتھ سرائیکی قوم پرستوں کا ہے۔ میرے اس جملے پر ایک ہنگامہ بھی کھڑا ہو سکتا ہے لیکن اب اس ڈر سے جھوٹ بھی نہیں بولا جا سکتا۔ دراصل سرائیکی قوم پرستوں نے اس سارے معاملے میں ایک ایسا ایشو کھڑا کر دیا جو اس سارے مسئلے میں باعث تفرقہ بن گیا اور وہ لفظ سرائیکی تھا۔ سرائیکی کے نام پر سرائیکستان نامی صوبہ بنانے کا اعلان کیا اور اس سے متعلق اور تحفظات نے دیگر آباد کاروں کے دل میں جہاں ایک بے اطمینانی پیدا کی وہیں چند عاقبت نا اندیش نام نہاد قوم پرستوں نے مزید عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا اور معاملہ آگے کیا بڑھتا وہ شروع سے ہی باہمی مخالفت اور عدم اتفاق کے باعث چار قدم بھی نہ چل سکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سرائیکی قوم پرستوں کو عوام میں وہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکی جو ایک علیحدہ صوبے کی تشکیل کیلئے درکار تھی۔ عاشق بزدار سے لیکر شوال فقیر تک۔ سب لوگ مجمعوں میں داد تو سمیٹتے رہے اور کیا کہوں؟ ان داد دینے والوں میں یہ عاجز خود بھی شامل تھا۔ مگر مشاعرے اور مجمعے میں داد لینا بالکل مختلف بات ہے اور ووٹ لینا بالکل مختلف ۔ میں کئی اسے شاندار شاعروں کو جانتا ہوں جو مجمع تو لوٹ لیتے ہیں مگر ووٹ وہ اپنے ہمسائے سے بھی نہیں لے سکتے۔ بقول شاہ جی انہیں اپنے گھر سے بھی پورے ووٹ نہیں ملیں گے۔ شاہ جی اس کی جو وجوہات بیان کرتے ہیں وہ ضابطہ تحریر میں نہیں آ سکتی۔
ایک بار میں ملتان کی ڈسٹرکٹ کورٹس میں بیٹھا تھا کہ ایک سرائیکی قوم پرست رہنما سے سرائیکی صوبے کے مستقبل پر بحث شروع ہو گئی۔ وہ مجھے نہیں جانتے تھے ساری بحث ایک دوست کے چیمبر میں ہو رہی تھی جو سرائیکی صوبے کے بڑے حامی تھے۔ میں نے سرائیکی میں اس قوم پرست رہنما سے پوچھا کہ اگر سرائیکی صوبہ بن گیا تو یہاں رہنے والے غیر سرائیکیوں کا کیا سٹیٹس ہوگا؟ وہ کہنے لگے وہی ہوگا جو بلوچستان میں غیر بلوچوں کا ہے یعنی وہ اس صوبے کے شہری نہیں بلکہ Settler ”سیٹلر‘‘ ہوں گے یعنی ”آباد کار‘‘ نہ یہ یہاں جائیداد خرید سکیں گے اور نہ ہی نوکریاں اس طرح حاصل کر سکیں گے جیسے سرائیکی نوجوان، سیٹلرز کا کوٹہ ہوگا۔ میں نے پوچھا آبادی کے تناسب سے ؟ کہنے لگے اگر آبادی کے تناسب سے ہی نوکریاں دینی ہیں تو پھر کوٹے کا فائدہ؟ پھر کہنے لگا چولستان میں غیر سرائیکیوں کو دی گئی ساری زمینیں واپس لے لیں گے۔ لیزیں منسوخ کر دیں گے میں نے پوچھا جو عشروں سے وہاں سٹیل ہیں بلکہ قیام پاکستان سے قبل نواب بہاولپور کے کہنے پر آئے تھے ان کا کیا بنے گا؟ کہنے لگے: ان سے بھی زمینیں واپس لے لیں گے۔ میں نے کہا: انہوں نے صحرا کو سرسبز کیا۔ بنجر کو آباد وہ ساری محنت؟ وہ کہنے لگے انہوں نے سو سال وہاں سے فصل اٹھائی ہے اور کیا چاہئے ؟ پھر مجھ سے کہنے لگے آپ سرائیکی ہو کر اتنے سوالات کیوں کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا: ویسے ہی۔ میرا دوست جس کے چیمبر میں یہ ساری گفتگو ہو رہی تھی اس قوم پرست رہنما سے کہنے لگا یہ سرائیکی نہیں پنجابی ہے۔ وہ سرائیکی قوم پرست رہنما گڑ بڑا سے گئے اور کہنے لگے: یہ سب کچھ ان کیلئے ہے جو اب تک پنجابی یا اردو بولتے ہیں۔ آپ جیسوں کیلئے نہیں جو اب سرائیکی بولتے ہیں۔ میں نے کہا : میرے گھر میں تو پنجابی بولی جاتی ہے۔ اب میرا کیا سٹیٹس ہے وہ کہنے لگے: اس پر غور ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا: میری پڑدادی ملتان دفن ہے۔ میرے دادا، میری والدہ، میرے تایا، چچا، پھوپھیاں، بھائی، بہن یعنی چار نسلیں پاک مائی کے قبرستان میں دفن ہیں۔ (تب والد مرحوم حیات تھے اور میری اہلیہ بھی)۔ میں نے بھی یہیں دفن ہونا ہے۔ میرا ملتان کے علاوہ دنیا میں کہیں اور گھر نہیں ، میں اب بھی سٹیلر ہوں؟ وہ کہنے لگے آپ ہیں تو سٹیلر ہی۔ میں نے کہا میں سرائیکی بولنے والے ان پٹھانوں سے کہیں زیادہ ملتانی ہوں جو کابل سے آکر آپ کا قتل عام کرتے رہے ، حکومت کرتے رہے اور اب ”سن آف سوائل‘‘ بنے پھرتے ہیں۔ میرا خاندان یہاں بھارت سے مہاجر ہو کر نہیں آیا۔ اپنی مرضی سے قیام پاکستان سے کہیں پہلے یہاں آیا۔ میرے والد صاحب نے میٹرک تک تعلیم بھی پائیلٹ سیکنڈری سکول سے حاصل کی۔ سن چالیس میں وہ یہاں ایمرسن کالج میں پڑھ رہے تھے۔ اس کے بعد وہاں خاصی بدمزگی پیدا ہوئی۔
اگر سرائیکی قوم پرست یہاں کے آباد کاروں کو ایسا تاثر نہ دیتے کہ یہ سرزمین صرف سرائیکیوں کے لیے ہوگی اور غیر سرائیکی دوسرے درجے کے شہری ہونگے تو یہ تحریک کہیں زیادہ مضبوط اور طاقتور ہوتی اور صوبے کا معاملہ اس سے کہیں مضبوط و مستحکم ہوتا جس مقام پر وہ آج ہے۔ ایمانداری کی بات ہے اگر صرف لفظ ”سرائیکی‘‘ کو نکال دیتے تو بھی بہت سے مسائل حل کیا ہوتے پیدا ہی نہ ہوتے۔ لیکن ایک ایسے لفظ پرفساد پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو بذات خود کل کی پیداوار ہے لیکن قوم پرست اسے ایسے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں جیسے یہ لفظ اس وسیب میں محمد بن قاسم کی آمد سے قبل بھی موجود تھا۔ یہ لفظ ”سرائیکی‘‘ 6 اپریل 1962 کو پہلی بار استعمال ہوا۔
جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ میں ماہر لسانیات نہیں ہوں مگر سامنے کی چیزوں کا کیا کروں ؟ مرحوم پروفیسر حسین سحر نے اپنی خود نوشت ”شام و سحر‘‘ میں یہ واقعہ بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ کتاب کے صفحہ 71 پروہ رقمطراز ہیں ”سمرا پبلک سکول حسن پروانہ پر میر حسان الحیدری نے 6 اپریل 1962 ) کو ایک اجلاس کا اہتمام کیا جس میں ڈیرہ غازی خان ‘ بہاولپور اور ملتان ڈویژن کے تقریباً تمام قابل ذکر ادیبوں اور شاعروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ میں اور اقبال ارشد بھی اس میں موجود تھے۔ میر صاحب نے اس اجلاس میں یہ تجویز پیش کی کہ جو مقامی زبان ملتان ، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور کے علاقے بولی جاتی ہے کہیں ریاستی یا بہاولپوری اور کہیں ملتانی جبکہ یہ معمولی سے فرق کے ساتھ ایک ہی زبان ہے۔ اگر اسے ایک مشترکہ مرکزی نام دے دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس پر سب نے کہا جو بولے وہ کنڈا کھولے۔ یعنی آپ نے یہ تجویز پیش کی ہے تو نام بھی آپ ہی تجویز کریں۔ جواباً انہوں نے اس کیلئے ایک نام دیا … سرائیکی… سب لوگ آپس میں چہ مگوئیاں کرنے لگے کہ یہ سرائیکی کیا ہے ؟ جب دوبارہ میر صاحب سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے وضاحت کی کہ ہمارے سندھ میں پہلے سے اس زبان کیلئے یہ نام موجود ہے۔ شمالی سندھ میں اسے سرائیکی کہتے ہیں اور اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ سرا یعنی شمال کی زبان۔ بس پھر کیا تھا سب نے تالیوں سے اس نئے نام کا استقبال کیا۔ اب وہ دن اور آج کا دن اس زبان کیلئے سرائیکی ہی کا نام رائج ہے۔ یوں گویا اس زبان کے نئے نام کے ہم چشم دید گواہ ہیں۔
یہ ہے لفظ سرائیکی کا سارا قصہ جس پر اب ایسے ہنگامہ ہو رہا ہے کہ اگر اس نام کا صوبہ نہ بنا تو وسیب کا استحصال ہو جائے گا۔ خود ملتان اس لفظ سے ہزاروں سال قدیم شناخت رکھتا ہے اور یہی وسیب کی پہچان ہے۔ میں چھوٹے ہوتے جب چھٹیوں میں لاہور جاتا تھا تو مرحوم تایا نواز مجھ سے پوچھتے تھے۔ اوئے ! تجھے ملتانی آتی ہے ؟ میں کہتا تھا جی آتی ہے۔ تایا جی کہتے سنائو۔ پھر میں بولتا تو وہ مزے لیتے۔ تب ہم نے کبھی سرائیکی کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ نہ ہی آج سے چند سال پہلے سرائیکی خطے کی پہچان ” نیلی اجرک‘‘ دیکھی تھی۔ اب وہ اس وسیب کی تقافتی پہچان بنتی جا رہی ہے چالیس پچاس سال بعد کوئی محقق آنے والی نسلوں کو بتائے گا کہ یہ نیلی اجرک ہڑپہ اور موہنجو ڈارو کی تہذیب سے بھی قدیم ہے۔ اس کی باقیات چودہ ہزار سال قدیم تہذیب مہر گڑھ کے کھنڈرات سے برآمد ہوئی تھیں۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ