حکمرانوں نے عوام کو عجب تنگ و پریشان کر رکھا ہے۔ میں اس وقت خیر سے مہنگائی‘ بے روزگاری‘ عدم تحفظ‘ انصاف کی عدم فراہمی‘ صحت و تعلیم کی زبوں حالی وغیرہ پر بات نہیں کر رہا‘ بلکہ یہ پریشانی تو حکمرانوں کے بیانات نے پیدا کی ہے۔ پرسوں سے اگلے روز عمران خان صاحب نے فرمایا کہ اٹھارہویں ترمیم نے وفاق کو دیوالیہ کر کے رکھ دیا ہے۔ خان صاحب کے اس بیان سے یہ پتا چلا کہ ملک میں محاصل کی ساری وصولی اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کے حوالے ہو گئی ہے اور وفاق کو کچھ بھی حاصل وصول نہیں ہو رہا ‘جبکہ وفاق کے خرچے اور صوبوں کو دی جانے والی امداد‘ اب پوری نہیں ہو رہی اور وفاق کا دیوالیہ نکل گیا ہے۔ یہ ساری تمہید اللہ جانے مالی بدحالی پر تھی یا اٹھارہویں ترمیم کے خلاف تھی ۔اس بارے کم از کم یہ عاجز تو وثوق سے کچھ کہنے سے قاصر ہے ۔اس بارے میں تو عمران خان صاحب خود ہی کوئی وضاحت کر دیں تو علیحدہ بات ‘وگرنہ ہما شما کو اس سلسلے میں کچھ کہنے کی جرأت ہی نہیں ہو سکتی۔
یہ عاجز عمران خان کے بیان کے بعد یہ سوچ رہا تھا کہ اگر عمران خان کی بات درست ہے تو پھر اور کچھ نہیں تو خیر سے صوبہ سندھ کے مالی معاملات تو بہت ہی عمدہ چل رہے ہوں گے کہ پاکستان کے کل محاصل کا تقریباً ساٹھ فیصد تو صرف کراچی سے حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے اٹھارہویں ترمیم کے بعد تو صوبہ سندھ پاکستان کا سب سے خوشحال صوبہ بن چکا ہوگا اور وہاں ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی کے طفیل روپے پیسے کی ریل پیل ہو گی اور سندھ کی صوبائی حکومت کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوگا۔ وہاں تو خوب موج میلا چل رہا ہوگا‘ بلکہ مجھے ایک بار تو خیال آیا کہ ممکن ہے‘ یہی وہ فراوانی والا پیسہ ہو‘ جو سرکار کی دریا دلی کے باعث قلفی اور فالودے والے کے اکائونٹ سے نکل رہا تھا اور اللہ بدگمانی سے بچائے ایک پنجابی محاورے کے مطابق یہی ”اُبل اچھل‘‘ والا پیسہ تھا‘ جو کراچی اور سندھ کی ترقی کے بعد بچ گیا تھا اور سندھ حکومت کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس فالتو پیسے کا کیا کرے‘ لہٰذا اس نے یہ بالکل فالتو پیسے غریبوں اور مسکینوں کے اکائونٹ میں ڈلوا دیئے اور کچھ ادارے اس غریب پروری کا سارا ملبہ بے چارے آصف علی زرداری اور آپا فریال تالپور کے کھاتے میں ڈال کر ان کو خواہ مخواہ خوار و خستہ کئے بیٹھے ہیں‘ لیکن آج اعلیٰ حضرت سید مراد علی شاہ نے اپنی طرف سے ایک درد ناک بیان جاری کر کے جہاں میری سندھ کی مہارت بارے ساری خوش فہمی کافور کر دی ہے ‘وہیں اٹھارہویں ترمیم کے بعد مرکز کی مالی بد حالی اور دیوالیہ پن پر بھی سوالیہ نشان اٹھا دیا ہے۔ اب میں پریشان اس بات پر ہوں کہ کس بیان پر یقین کروں؟ عمران خان کے بیان پر کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے امیراور وفاق دیوالیہ ہو گیا ہے یا وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے بیان کا اعتبار کروں کہ وفاقی فنڈز کی کمی کے باعث صوبے کی مالی پوزیشن غیر مستحکم ہو چکی ہے اور ترقیاتی کاموں کی تکمیل مشکل ہو گئی ہے۔
میرا خیال تھا کہ عمران خان کا وفاق کی مالی بدحالی اور دیوالیہ پن کا سن کر مراد علی شاہ از راہ محبت اور خیر سگالی اپنا فالتو پیسہ جو وہ فالودے اور قلفی بیچنے والوں کے اکائونٹ میں ڈلوا کر غریب پروری کا ثبوت دے رہے ہیں‘ عمران خان کی درد ناک اپیل کے بعد وفاق کو بھجوا دیں گے‘ لیکن ادھر الٹی گنگا بہہ نکلی ہے اور خود اٹھارہویں ترمیم سے مستفید ہونے والے اپنی مالی بد حالی کا رونا رو رہے ہیں۔ بعض چیزیں ایسی سدا بہار ہوتی ہیں کہ ان کو جب بھی سنیں وہ تازہ ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے بالکل نئی محسوس ہوتی ہیں‘ جیسا کہ بلی اور گوشت والا معاملہ۔
قارئین ! مجھے اس عشروں پرانی‘ گھسی پٹی اور پھٹی پرانی کہانی سنانے پر معاف کیجئے گا ‘لیکن کیا کروں؟ معاملہ ہی ایسا آن پڑا ہے کہ ساری کہانی بالکل نئی نکور اور ”ان ٹچ‘‘ لگ رہی ہے۔ مالک نے نوکر کو دو کلو گوشت لا کر دیا اور اسے کہا کہ وہ اس گوشت کو پکائے‘ گھر میں مہمان آنے والے ہیں۔ نوکر نے بھنا ہوا گوشت بنایا اور اسی دوران چکھتے چکھتے سارے کا سارا گوشت کھا گیا۔ کیا کرتا؟ گوشت بنا ہی اتنا مزیدار تھا کہ اس کا ہاتھ ہی نہ رکا اور وہ سارا گوشت چٹ کر گیا۔ اب یہ پریشانی آن لاحق ہوئی کہ مالک کو کیا کہوں گا؟ خیر چسکے کی قیمت تو ادا کرنی پڑتی ہے‘ مگر نوکر خاصا چالاک اور چلتا پرزہ تھا۔ اس نے بہانہ سوچ لیا۔ مالک نے آ کر پوچھا کہ گوشت پکا لیا ہے؟ آگے سے نوکر نے کہا کہ حضور پکانا خاک تھا؟ آپ کی چہیتی بلی سارا گوشت کھا گئی ہے۔ مالک نے پوچھا سارا گوشت؟ یعنی دو کلو کا دو کلو؟ نوکر نے کہا: حضور آپ کو اپنی بلی کے چٹورے پن اور پیٹو ہونے کا بخوبی علم ہے۔ وہ پورا دو کلو گوشت کھا گئی ہے۔ مالک نے بلی کو پکار کر بلایا اور ترازو میں رکھ کر تولا۔ بلی کا وزن پورا دو کلو نکلا۔ مالک نے نوکر سے کہا کہ اگر یہ دو کلو گوشت کا وزن ہے تو پھر بلی کہاں گئی؟ اور اگر یہ دو کلو بذات خود بلی کا وزن ہے تو پھر دو کلو گوشت کہاں گیا؟ آگے کا قصہ نامعلوم ہے کہ نوکر نے کیا جواب دیا اور مالک نے کیا ایکشن لیا۔ ساری بات دراصل اس دو کلو وزن کی تھی‘ جس کے بارے میں سارا کنفیوژن پھیلا کہ یہ دو کلو دراصل کس مد میں شمار کئے جائیں؟ بلی کے وزن کی مد میں یا گوشت کے حساب میں۔
اب معاملہ یہ آن پڑا ہے کہ پیسے کہاں گئے؟ وفاق خود دیوالیہ ہے اور صوبہ مالی بدحالی کا شکار ہے۔اٹھارہویں ترمیم کے طفیل وفاق دیوالیہ ہو گیا ہے اور صوبوں کو کچھ دینے سے قاصر ہے۔ دوسری طرف صوبوں کے پاس ہے کچھ نہیں اور وفاق انہیں کچھ دے نہیں رہا۔ عجب گورکھ دھندا ہے۔ بالکل ویسا ہی کنفیوژن ہے ‘جیسا کہ ایک پیٹو نے پیدا کر دیا تھا۔ ایک بیسار خور پیٹو نے دوران سفر بھوک کی شدت سے تنگ آ کر اپنے سفر کے ہمراہ پالتو کتے کو پکایا اور کھا گیا (یاد رہے کہ یہ بسیار خور پیٹو کوئی چینی یا کوریائی باشندہ تھا) خیر جب سب کچھ کھا کر فارغ ہوا تو سامنے پڑی ہوئی ہڈیاں دیکھ کر تاسف سے کہنے لگا: اگر آج میرا کتا زندہ ہوتا تو یہ ہڈیاں کھا لیتا۔
لیکن ایک دو چیزیں ابھی تک ایسی ہیں ‘جنہوں نے میرا دماغ پلپلا کر کے رکھ دیا ہے۔ پہلی یہ کہ آخر ایف بی آر کس کے ماتحت ہے؟ ملکی معیشت کی بربادی کے دو تین بنیادی عوامل بجلی کمپنیوں کا خسارہ ‘یعنی روز افزوں بڑھتا ہوا سرکلر ڈیٹ ہے۔ اس پر کنٹرول کرنا وفاق کا کام ہے یا اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کی ذمہ داری ہے؟ ہر سال کئی سو ارب کے خسارے کا باعث بننے والی قومی ائیر لائن ابھی وفاق کے ماتحت ہے یا اسے بھی اٹھارہویں ترمیم کے ساتھ صوبوں کو دے دیا گیا ہے؟ ریلوے خسارے کو کنٹرول کرنا وفاق کا کام ہے یا صوبوں کا؟ وفاقی ٹیکسوں کا دائرہ کار بڑھانا اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنا وفاق کا کام ہے یا یہ بھی ملبہ اٹھارہویں ترمیم پر ڈال کر جان چھڑوائی جائے گی؟ وفاق کا خسارے کو کم کرنے کے لیے سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ بجلی کی کمپنیوں کی ‘پی آئی اے کی‘ ریلوے کی‘ سٹیل ملز کی اور اسی قسم کے مسلسل اربوں کھربوں روپے ڈکارنے والے اداروں کی نجکاری کی جائے۔ ان اداروں کو سرکار کی چھتری تلے منافع بخش بنانا عملی طور پر نا ممکن کام ہے اور گزشتہ حکومتیں اس سلسلے میں انتظامی فیصلے کرنے کے بجائے سیاسی فیصلے کرتی رہیں اور ان سفید ہاتھیوں کو قوم کے ٹیکسوں کے پیسے پر پالتی رہیں۔ اس کا نتیجہ سالانہ کئی کھرب روپے کا خسارہ ہے‘ جو صرف اور صرف ٹیکسوں سے پورا کرنا اب ممکن ہی نہیں رہا۔
وفاق کے حالیہ دیوالیہ پن کی آخری وجہ یہ ہے کہ ایف بی آر اپنے محاصل کے اہداف ہی حاصل نہیں کر سکا اور 4300 ارب کے ٹیکسوں کی وصولی کی مد میں گزرنے والے دس ماہ میں 380 ارب روپے کے خسارے کا شکار ہے اور معاشی پنڈتوں کے بقول ؛مالی سال کے اختتام تک یہ خسارہ کم از کم 400 ارب روپے اور زیادہ سے زیادہ 450 ارب روپے ہو سکتا ہے۔ یہ سارا خسارہ ایف بی آر کی مایوس کن کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے‘ جو وفاق کے زیر انتظام محکمہ ہے اور اس پر اٹھارہویں ترمیم کا کوئی عمل داخل نہیں ہے۔ اب اس ادارے کا سربراہ باہر سے لا کر یہ بات عملی طور پر تسلیم کر لی گئی ہے کہ محاصل سے متعلق ہزاروں بیورو کریٹس میں سے ایک آدمی بھی اس قابل نہ تھا کہ اسے اس محکمے کا سربراہ مقرر کیا جاتا۔ یہ سارے پاکستان کو چلانے پر مامور سرکاری افسران کی کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ فی الحال پرائیویٹ کمپنی کے آڈیٹر اور آئی ایم ایف کے حاضر سروس ملازم پر گزارہ کریں اور انتظار کریں کہ آگے کیا ہونا ہے؟
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ