داتا دربار میں پولیس وین کو نشانہ بنانے والے خود کش بمبار نے دس افراد کو شہید کردیا جن میں اکثریت پولیس اہلکاروں کی ہے۔ 25 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ درجن بھر زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔ آج ہی وفاقی کابینہ نے دینی مدارس اور سرکاری اسکولوں کا نصاب یکساں کرنے کی تجویز منظور کرلی ہے۔ اگر مدرسے ہی دہشت گرد پیدا کرتے ہیں تو ان دو واقعات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دہشت گرد اور حکومت دونوں ہی اپنا کام ’خوش اسلوبی‘ سے انجام دے رہے ہیں۔
یوں تو نئے پاکستان میں دہشت گردی، مہنگائی، اصراف، پروٹوکول اور بدانتظامی کے وہ سارے مظاہر دکھائی دیتے ہیں جنہیں ختم کر کے نئے پاکستان کی بنیاد رکھنا مطلوب تھا لیکن ایک بات البتہ سول ملٹری تعاون کے باب میں یوں درج کردی گئی ہے کہ حکومت کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے فوج کی طرف سے اعلان کا انتظار کرتی ہے تاکہ تعاون کے نازک رشتے میں آنچ آنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ وفاقی کابینہ نے آج مدرسوں کا سلیبس تبدیل کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس کا اعلان بھی پاک فوج کے مستعد ترجمان میجر جنرل آصف غفور ایک دھؤاں دار پریس کانفرنس میں چند روز پہلے کرچکے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں لگ بھگ 30 ہزار دینی مدرسے ہیں لیکن ان میں سے ایک سو سے بھی کم انتہا پسندی کی تعلیم دیتے ہیں یعنی ’دہشت گرد‘ تیار کرتے ہیں۔ پھر بھی جنرل صاحب نے یقین دلایا تھا کہ سب مدرسوں کو وزارت تعلیم کے تحت لا کر ان کا سلیبس تبدیل کیا جائے گا اور اس میں سے نفرت اور انتہاپسندی پھیلانے والا مواد نکال دیا جائے گا۔
وفاقی کابینہ نے اس اعلان میں فراہم کردہ معلومات کے عین مطابق آج مدارس کے سلیبس کو تبدیل کرنے اور مدارس کو سرکاری انتظام میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلہ کا مقصد میجر جنرل آصف غفور کے الفاظ میں دہشت گردی کی ’ بیخ کنی‘ کے بعد ان نرسریوں کو ختم کرنے کے لئے کام کا آغاز ہے جو ایسے عوامل پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں جن کی وجہ سے نوجوان دہشت گردی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس بار حکومت اس مقصد میں کامیاب ہو جائے گی کیوں کہ مولانا فضل الرحمان جیسے ہیوی ویٹ مدرسوں کی طرف اٹھنے والی ہر میلی آنکھ نکال دینے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔
یوں بھی اس سے پہلے براہ راست ملک پر فوج کی حکومت مسلط کرنے والے جنرل (ر) پرویز مشرف نے بھی مدرسوں کو راہ راست پر لانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد جنوری 2015 میں منظور کئے گئے قومی ایکشن پلان کے تحت بھی مدرسوں کے سلیبس کو تبدیل کرنے اور انہیں ’مین اسٹریم ‘ میں لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ تجویز تمام قومی جماعتوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی شدید خواہش پر متفقہ طور سے منظور کی تھی۔ یادش بخیر پاکستان تحریک انصاف اس وقت انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے مقدس مشن پر فائز تھی۔ اور موجودہ وزیر اعظم اور اس وقت کے انقلابی رہنما عمران خان نے اعلان کر رکھا تھا کہ اگر ان کے سارے ساتھی بھی انہیں چھوڑ جائیں تو بھی وہ حکومت کے خاتمے یا اپنی آخری سانس تک ڈی گراؤنڈ کا دھرنا جاری رکھیں گے۔ تاہم 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول، پشاور پر دہشت گرد حملہ کے بعد پیدا ہونے والی ’قومی بحرانی صورت حال‘ میں انہوں نے ایک بڑے لیڈر کی طرح قومی مفاد میں ’یو ٹرن ‘ لے لیا۔ شاید اسی یو ٹرن کا فیض ہے کہ وہ اس وقت ملک کے وزیر اعظم ہیں اور قومی ایکشن پلان پر حرف بہ حرف عمل کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
اسی قومی ایکشن پلان کی مقدس شرائط پر پوری طرح عمل کرنے کے باب میں چوہدری نثار علی خان بھی 2017 میں وزارت داخلہ سے علیحدہ ہونے تک ہر دو چار روز بعد طول طویل پریس کانفرنس کے ذریعے اپنی کارکردگی کی رپورٹ قوم کے سامنے پیش کرتے رہتے تھے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ حکومت خواہ نواز شریف جیسے ’بد اندیش ‘ ہی کے ہاتھ میں کیوں نہ ہو لیکن وہ بطور وزیر داخلہ حکومت سے ’خود مختار‘ اور ان اداروں کے تابعدار ہیں جو امن و امان قائم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ اب چوہدری نثار کہانی ہوئے اور ان کی تابعداری بھی انہیں کوئی بڑا سیاسی انعام دلوانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اب ایک طرف مسلم لیگ (ن) نے شہباز ڈاکٹرائن سے اجتناب کرنے کے لئے عملی اقدامات کئے ہیں تو اس کے ساتھ ہی چوہدری نثار علی خان جیسے اصول پرست اور عزت کی خاطر سیاست کرنے والے لیڈر نے 35 سالہ ’رفاقت‘ کے بعد مسلم لیگ (ن) کا نام نہاد ساتھی ہونے سے بریت کا باقاعدہ اعلان کیا۔
داتا دربار لاہور جیسے مرکزی مقام پر ہونے والا خود کش حملہ تاہم ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ سیاسی لیڈر خواہ ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے میں کسی حد سے بھی گزرنے پر تیار ہوجائیں لیکن عملی طور سے قومی سیاسی منظر نامہ پر چہرے بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ ایک طرف ملک کی معیشت حکومت کی بدانتظامی اور کمزور گرفت کے سبب زبوں حالی کا شکار ہے اور ملک میں سرمایہ کاری اور معاشی احیا کی امید ہر آنے والے دن کے ساتھ دم توڑتی دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف تواتر سے ہونے والے دہشت گرد حملوں کی وجہ سے بے یقینی اور اقتصادی ابتری میں اضافہ کا امکان بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ حملے صرف چند انسانوں کی جان لینے کا سبب ہی نہیں بنتے بلکہ ان کی وجہ سے ملکی معیشت اور سماجی حیثیت کو جو شدید نقصان پہنچتا ہے اس کا ازالہ کرنے کے لئے بعض اوقات دہائیوں کی محنت بھی کم پڑ جاتی ہے۔
ملکی معیشت اور سماج سدھار کے حوالے سے دہشت گرد حملوں کے اثرات کا اندازہ کرتے ہوئے اس قیاس کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ دشمن پاکستان کو زچ کرنے میں ہر دم چوکس اور سرگرم ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے براہ راست اقدام کرتا ہے یا اپنے ایجنٹوں کے ذریعے انتشار و بدامنی پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ اس کی براہ راست زد ملک کی معاشی استعداد اور سفارتی حیثیت پر پڑتی ہے۔ عالمی دارالحکومتوں اور اداروں میں پاکستانی نمائندوں کو ہاتھوں سے لگائی یہ گانٹھیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ جب دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے بلند بانگ دعوؤں کے ہوتے ہوئے ملک لگاتار دہشت گرد حملوں کی زد پر ہو تو اس کا جواب ہر بین الاقوامی فورم پر پاکستان کے سفارت کاروں کو ہی دینا پڑتا ہے۔ اور ان کی وضاحتوں پر اعتبار کی سطح مسلسل کم ہوتی رہتی ہے۔ دنیا کو دہشت گردی کے جس چیلنج کا سامنا ہے اور پاکستان جیسے ملکوں سے اس حوالے سے جو تقاضے کئے جاتے ہیں، ان کی روشنی میں، دہشت گردی کا ہر واقعہ عالمی سطح پر پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے۔
داتا دربار پر ہونے والے افسوسناک حملےسے چند ہی گھنٹے پہلے ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف ایک جلوس کی صورت میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل پہنچے۔ جیل حکام کو اس موقع پر یہ فکر نہیں تھی کہ اپنے قیدی کو ’وصول ‘ کریں بلکہ وہ وزارت داخلہ کے اس حکم کے منتظر تھے کہ نواز شریف کو جیل میں داخل ہونے دیا جائے یا ’تاخیر‘ سے رپورٹ کرنے پر گھر لوٹا دیا جائے۔ تاکہ بعد میں متعلقہ حکام انہیں گرفتار کرکے جیل پہنچانے کا کوئی زیادہ ہتک آمیز طریقہ سوچ سکیں۔ اور ججوں کی توجہ اس اہم ’جرم ‘ کی طرف مبذول کروا سکیں کہ کس طرح ایک مجرم رعایت سے فائدہ اٹھانے کے بعد عدالت عظمیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کا مرتکب ہؤا ہے۔ اب عدالت کا بھی فرض ہے کہ اس بے قاعدگی اور حکم عدولی کا نوٹس لے۔ نئے پاکستان میں عدالتوں کی ایسی ’توہین‘ کیوں کر برداشت کی جا سکتی ہے۔
نواز شریف کی جیل واپسی اور داتا دربار کے باہر دہشت گردی کا بظاہر کوئی تعلق نہیں۔ لیکن ملک میں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے دشنام طرازی اور مقدمے بازی کا جو ماحول بنا دیا گیا ہے اس میں دہشت گردی جیسے خطرے سے نمٹنے اور اس سے متعلق امور کو طے کرنے کے لئے حکومت کی صلاحیتیں بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ جس شدت سے وزیر اعظم اور ان کے ساتھی سابقہ حکمرانوں کی لوٹ مار کے افسانے سنا کر انہیں عبرت کا نشان بنانے کے دعوے کرتے ہیں، وہ شدت دہشت گردی کا سامنا کرنے کے حوالے سے دیکھنے میں نہیں آتی۔ اس موقع پر دفتری بابوؤں کا تیار کردہ دہائیوں پرانا بیان صدر مملکت کے دفتر سے لے کر وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کے سیکریٹریٹ تک سے جاری ہوجاتا ہے کہ حکومت اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گی جب تک دہشت گردی اور نفرت کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔
دہشت گردی اور ملکی معیشت کو لاحق خطرے قومی مسئلہ ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لئے ’نئے پاکستان‘ میں بھی قومی منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے۔ جب گھر پر حملہ ہو جائے تو یہ حساب نہیں کیا جاتا کہ مکینوں میں سے کون کیا کرتا اور کہتا رہا ہے۔ اس وقت مل کر حملہ آور کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ معیشت کا بحران اور دہشت گردی، پاکستان کی بنیاد پر ہونے والے حملے ہیں۔ ان کا سامنا کرنے کے لئے سیاسی لڑائی کی بجائے قومی سیاسی مفاہمت اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔ وزیر اعظم روحانیت کے سمندر سے سر باہر نکالیں تو ان امور پر بھی غور فرما لیں۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ