لوگوں کو بالکل شرم نہیں آتی۔ ڈیم کے لیے پاکستانیوں سے تعاون کی اپیل پر شور مچانے والوں کو اسے چندہ اور خیرات کا نام دینے سے پہلے ایک لمحے کے لیے یہ ضرور سوچنا چاہئے تھا کہ ڈیم کی تعمیر کے لیے اپنے پاکستانیوں سے تعاون مانگنا قابلِ شرم ہے یا اپنے اللوں تللوں کے لیے غیروں کے آگے ہاتھ پھیلانا زیادہ شرم کی بات ہے۔ آج جو لوگ ڈیموں کی تعمیر کے لیے حکومت کی پاکستانیوں سے اپیل پر ہاہاکار مچا رہے ہیں وہ دنیا بھر میں اپنے عیش کے لیے کاسۂ گدائی لے کر پھرتے رہے ہیں اور آج ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیلنے کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں۔ زیادہ دور نہ جائیں۔ جولائی 2015ء میں پاکستان پر غیر ملکی قرضوں کی رقم چھیاسٹھ ہزار ملین ڈالر تھی جو جولائی 2018 میں یعنی صرف تین سال میں پچانوے ہزار ملین ڈالر سے زائد ہو چکی تھی۔ یعنی صرف تین سال میں انتیس ہزار ملین ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ اس سارے قرضے کے ماسٹر مائنڈ اسحاق ڈار صاحب اب کمر میں ”چک‘‘ ڈال کر برطانیہ میں بیمار پڑے ہیں۔
ڈیموں کی تعمیر کے لیے پاکستانیوں سے تعاون مانگنا اگر خیرات مانگنا ہے تو اس کی شروعات بھی مسلم لیگ ن کے سر جاتی ہے جب انہوں نے ”قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ کے نام پر دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں سے تعاون مانگا تھا اور اربوں روپے بٹور کر کھا گئے تھے۔ اس ساری رقم کا آج تک کسی نے حساب نہیں دیا کہ کتنی رقم اکٹھی ہوئی اور وہ کون سے قرضے اتارنے پر صرف ہوئی اور پاکستان پر سے قرضوں کا کتنا بوجھ ہلکا ہوا ؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ ڈیموں کی تعمیر کے لیے اکٹھی ہونے والی رقم کی مقدار روزانہ کی بنیاد پر اخبارات میں آ رہی ہے اور کم از کم اس رقم کے بارے میں سب کچھ بڑا ٹرانسپیرنٹ ہے اور اور کچھ ابہام نہیں۔ معاملے کے شفاف ہونے کی جانب یہ پہلا قدم ہے۔
خدا جانے یہ کیسے لوگ ہیں جنہیں خود آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور امریکہ وغیرہ کے آگے ان کی شرائط پر سر جھکاتے ہوئے قرض مانگتے تو رتی برابر شرم نہیں آئی اور ملک کو گردن تک قرضے میں پھنسا کر اور گھر کی آدھی قیمتی چیزیں بشمول ایئرپورٹس اور موٹر وے وغیرہ گروی رکھ کر قرضے لینے والے ان ”باعزت‘‘ لوگوں کو قوم سے مانگے جانے والے تعاون پر بڑی شرم آ رہی ہے۔ یہ خود وہ لوگ ہیں جو ہر چوتھے دن کاسۂ گدائی اٹھا کر قرض مانگنے چل پڑتے تھے اور اس قرض کی آدھی رقم تو پرانے قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتی تھی اور آدھی رقم موج میلے میں چلی جاتی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لندن کی جائیدادوں کی منی ٹریل نہیں مل رہی۔
لیکن ایک سوال موجودہ حکومت کے لیے بھی باقی ہے اور وہ یہ کہ ڈیم تو چلیں کسی نہ کسی طرح یہ قوم اپنا پیٹ کاٹ کر بنوا بھی دے گی تو باقی معاملات کیسے چلیں گے؟ کیا اس ملک کا مسلسل خسارے میں چلنے والا بجٹ وزیراعظم ہاؤس کی ایک سود و لگژری گاڑیوں اور آٹھ عدد کالی بھینسوں کی فروخت سے نفع میں چلا جائے گا؟ ان ایک سو دو گاڑیوں میں چار عدد بلٹ پروف لینڈ کروزر گاڑیاں ہیں اور شاید سب سے زیادہ قیمتی یہی چار گاڑیاں ہیں۔ سولہ بی ایم ڈبلیو گاڑیاں ہیں۔ اٹھائیس مرسڈیز گاڑیاں ہیں جن میں سے دو بلٹ پروف ہیں۔ چالیس ٹویوٹا گاڑیاں ہیں جن میں 2004ء اور 2006ء کی بارہ سے چودہ سال پرانی گاڑیاں بھی شامل ہیں۔ پانچ مٹسوبشی کاریں، نو عدد ہنڈا گاڑیاں ہیں۔ یہ کل ایک سو دو گاڑیاں ہوئیں۔ بقول ایک ماہر کے ان گاڑیوں کی کل قیمت لگائیں جن میں بارہ سے چودہ سال پرانی ٹویوٹا گاڑیاں ہیں اور تھکی ہوئی مٹسوبشی گاڑیاں بھی جن کی ”ری سیل ویلیو‘‘ اتنی شرمناک ہے کہ بیان سے باہر اور پھر ہنڈا گاڑیاں۔ لے دے کر چار بلٹ پروف لینڈ کروزر، اٹھائیس مرسڈیز اور سولہ بی ایم ڈبلیو، یہ کل اڑتالیس گاڑیاں بنتی ہیں جو لگژری اور قیمتی کہلائی جا سکتی ہیں۔ ان ساری گاڑیوں کے اگر ایک ارب روپے بھی مل جائیں تو غنیمت ہے وگرنہ ستر اسی کروڑ سے زیادہ کی امید نہیں۔ پرانی اور استعمال شدہ لگژری کاروں کی ری سیل ویلیو بہت ہی کم ہے۔ ہاں ا لبتہ آٹھ عدد پلی ہوئی بھینسوں کی محیر العقول قیمت مل جائے تو یہ الگ بات ہے۔
کیا خیال ہے، ان ایک سو دو گاڑیوں، آٹھ بھینسوں کی فروخت چار عدد گورنر ہاؤسوں اور ایک عدد پرائم منسٹر ہاؤس کے اخراجات کم کر کے کیا ملک کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دیا جا سکتا ہے؟ جس ملک میں صرف بجلی کے سیکٹر میں مجموعی خسارہ تو ایک طرف رکھیں صرف سرکلر ڈیٹ کی رقم ایک ہزار ارب روپے سے تجاوزکر گئی ہو وہاں یہ بچتیں اور نیلامیاں اونٹ کے منہ میں زیرے سے بھی کم ہیں۔ چلیں اس سال تو میاں نواز شریف کی ضرورت سے کہیں زیادہ اکٹھی کی ہوئی لگژری گاڑیوں، اور ہاں میں ان چار ناکارہ ہیلی کاپٹروں کو شامل کرنا بھول گیا تھا، جو وزیراعظم ہاؤس میں کھڑے ہیں، ان سب کو بیچ کر ملکی خسارے کے اونٹ پر لدے بوجھ سے ایک چھلنی اتار لی جائے گی لیکن یہ ایک سو دو گاڑیاں چار ہیلی کاپٹر اور آٹھ عدد بھینسیں فروخت کر کے کیا اگلے پانچ سال چلائے جا سکتے ہیں؟
مجھے گمان ہی نہیں ، یقین تھا کہ وزیر اعظم عمران خان ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے ٹیکس چوروں کی اس جنت میں دولتمندوں سے ٹیکس وصول کریں گے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں کو ملکی معیشت کے لیے سازگار کریں گے۔ زراعت اور ایکسپورٹ سے آمدنی بڑھانے پر زور دیں گے اور اس بارے پالیسی بنائیں گے۔ سخت اقدامات کریں گے کہ اب ملک موجودہ ٹیکس کے نظام سے نہ تو چل سکتا ہے اور نہ ہی خود کفالت کا خواب پورا کر سکتا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ کسی کی بات نہ سننے والا، لاکھ سمجھانے پر بھی اپنی بات پر اڑا رہنے والا عمران خان کسی کی نہیں سنے گا اور ایسے سخت معاشی اقدامات کرے گا جس کی ووٹ کے بھوکے سیاستدانوں سے کم از کم مجھے تو امید نہیں تھی لیکن یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ تو وہی کچھ ہو رہا ہے جو گزشتہ ستر سال سے ہوتا آ رہا ہے۔ لوگ تو یہ امید لگا بیٹھے تھے کہ پرانا ستر سالہ کہنہ اور متروک نظام دریا برد کر دیا جائے گا لیکن یہ تو سب وہی ووٹ لینے کے لالچیوں جیسا نظام ہی چل رہا ہے۔
اب مجھے بے شک کوئی برا بھلا کہے یا بے شک گالیاں ہی کیوں نہ دے لیکن یہ کیا؟ گیس کی قیمتیں بڑھانے کا اعلان ہوا اور چار بیانات پر قیمتیں بڑھانے سے ڈر گئے۔ کیا یہ قیمتی گیس گھروں میں جلانے کے لیے ہے؟ اس کو جلانے کے بجائے اگر اس سے انڈسٹری چلائی جاتی تو ملکی معیشت کی بہتری لوگوں کی قیمت خرید بڑھا دیتی۔ لوگ اس کا متبادل خواہ مہنگاہی کیوں نہ ہوتا، استعمال کرنے کی استطاعت رکھتے۔ لیکن ہو کیا رہا ہے؟ جن کے گھروں میں گیس نہیں وہ گیارہ اعشاریہ آٹھ کلو گرام کا ایل پی جی کا ایک چھوٹا سلنڈر آج کل سترہ سو روپے میں خریدتے ہیں۔ اوسطاً ہر گھر دو سلنڈر استعمال کرتا ہے۔ یعنی وہ ایل پی جی کی خرید پر ماہانہ چونتیس سو روپے خرچ کرتے ہیں۔ دوسری طرف اتنی ہی قدرتی گیس استعمال کرنے والا صارف اس کی کتنی قیمت ادا کرتا ہے؟ ساڑھے تین سو روپے یا حد چار سو روپے۔ ایک طرف چونتیس سو روپے اور سلنڈر کو بھروانے اور لانے لیجانے کی مصیبت، دوسری طرف گھر بیٹھے ساڑھے تین سو روپے کی گیس۔ قرضوں میں ڈوبا ہوا ملک بھلا کب تک پلے سے پیسے ڈال کر ہمارے لیے بجلی اور گیس فراہم کرتا رہے گا۔ آخر وہ لوگ بھی اسی ملک کے شہری ہیں جو ماہانہ ساڑھے تین ہزار کے لگ بھگ کی ایل پی جی خریدتے ہیں اور وہ بھی اسی ملک کے باسی ہیں، جو اس سے زیادہ گیس ساڑھے تین سو روپے میں استعمال کرتے ہیں اور قیمت بڑھانے کو ظلم عظیم سمجھتے ہیں۔
پہلے اعلان ہوا اور پھر چار بیانات سے ، جن میں ان لوگوں کے بیانات سب سے بلند آہنگ تھے، جنہوں نے اس ملک کی معاشی لٹیا ڈبوئی ہے، ڈر کر قیمت میں اضافے کی تجویز واپس لے لی گئی۔ اگر اسی طرح ڈرنا ہے تو ملک کی معیشت سنبھل چکی اور آئی ایم ایف کو ٹھینگا بھی دکھا چکے۔ ای سی سی کے اجلاس میں جب کسی نے گیس کی قیمتوں میں اضافے پر زور دیا تو راولپنڈی کے کشمیری ایم این اے نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا: لوگوں سے ووٹ آپ نے لینے ہیں یا ہم نے مانگنے ہیں؟ معاملہ ووٹوں کے مانگنے پر ختم ہو گیا۔ دیکھتے ہیں یہ معیشت چار چھ بڑے گھروں کی بچت، چار ہیلی کاپٹروں، ایک سو دوگاڑیوں اور آٹھ بھینسوں کی فروخت کے زور پر کتنے دن چلتی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ