وفاقی وزیر پلاننگ و ڈویلپمنٹ مخدوم خسرو بختیار کے حلقہ کے ایک ووٹر محمد اکبر خان کھوسہ سکنہ ہیڈ لنجی وار تحصیل خانپور رحیم یارخان نے ان سے ایک درخواست میں استدعا کی ہے کہ ضلع رحیم یارخان کے چھوٹے چھوٹے کاشتکاروں کو سی پیک میں آنے والی زمینوں کا مناسب معاوضہ دلایا جائے ۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہم چھوٹے زمیندار ہیں چھوٹی چھوٹی قطعہ اراضی پر ہمارا گزر بسر ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے غریب کاشتکاروں کی زمینیں سی پیک منصوبے میں آئیں ۔ ظلم یہ کیا گیا کہ 30 لاکھ والی زمین کا معاوضہ محض تین لاکھ مقرر ہوا جبکہ دوسرے علاقوں میں معاوضے زیادہ مقرر ہوئے ۔ درخواست میں کہا گیاکہ ہمارے علاقے میں غربت اور بے روزگاری ہے اور ایک ستم یہ بھی ہے کہ ہمارے علاقے کی زمینیں دریا بردگی کا شکار ہیں ۔ اوپر سے سی پیک منصوبے نے ہمارے علاقے کے چھوٹے زمینداروں کو تباہ کر کے رکھ دیا ، ہماری درخواست ہے کہ زمینوں کا مناسب معاوضہ دلایا جائے یا پھر سی پیک متاثرین کو اسی طرح چولستان میں زمینیں دی جائیں جس طرح تربیلا ، منگلا و دیگر متاثرین کو دی گئیں ۔ یہ تو تھی مخدوم خسرو بختیار کے ایک ووٹر اکبر خان کھوسہ کی درخواست ۔ اب میں بات کروں گا مخدوم خسرو بختیار کے انتخابی مہم کے دوران کی گئی تقریروں کی ۔ سرائیکی کے معروف انقلابی شاعر امان اللہ ارشدؔ مخدوم خسرو بختیار کی انتخابی مہم کے دوران رکن پور کی رئیس برادری کی طرف سے منعقد کئے گئے جلسے کا احوال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مخدوم خسرو بختیار نے عظیم اجتماع سے خطاب میں کہا کہ اس طرح سمجھیں کہ عمران خان کی جماعت کامیاب ہو چکی ہے۔ وہ وزیراعظم بن جائیں گے ۔ مگر ہم نے اپنے علاقے کی بہتری کا سوچنا ہے ۔ ہمارے اس علاقے سے سی پیک منصوبہ جا رہا ہے ، اگر اس علاقے میں صنعتی زون نہ بن سکے تو بیروزگاری ختم نہیں ہوگی ، غربت کا خاتمہ نہیں ہوگا ، پھر اس سی پیک کا کوئی فائدہ نہ ہوگا ، صرف یہ ہوگا کہ بڑی بڑی گاڑیاں یہاں سے گزر رہی ہونگی اور ہمارے وسیب کا غریب بچہ میلا کُچیلا کُرتا پہن کر بغیر جوتا اور بغیر شلوار منہ میں انگلی ڈال کر حسرت بھری نگاہوں سے فراٹے بھرتی کاروں کو صرف دیکھ رہا ہوگا۔ مخدوم خسرو بختیار نے اس موقع پر اعلان کیا کہ ہم صوبہ بھی بنوائیں گے اور اس علاقے کو صنعتی علاقے میں تبدیل کریں گے اور بے روزگاری ختم کر کے سی پیک کو اس علاقے کیلئے خوشحالی کا منصوبہ بنائیں گے۔ خوش قسمتی سے مخدوم خسرو بختیار نے اپنے حلقے سے کامیاب ہو کر وہ وزارت لی ہے جس میں سی پیک آتا ہے ۔ گزشتہ روز چین کے سفیر سے ملاقات کے دوران مخدوم خسرو بختیار نے کہا کہ ہم سی پیک منصوبے کو جاری رکھیں گے اور اسے زیادہ سے زیادہ کار آمد اور مفید بنائیں گے۔ جہاں تک ان کے حلقے کے ووٹر کی درخواست کا تعلق ہے تو اس پر ضرور غور ہونا چاہئے اور سی پیک میں آنے والی زمینوں کا معقول معاوضہ ملنا چاہئے ۔ اس علاقے میں یہ شکایات بھی ہیں کہ ابھی تک معاوضہ جات نہیں ملے ۔ اگر ایسا ہے تو حقداروں کو ان کا حق ملنے میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے اور جہاں تک سی پیک کی بات ہے تو سی پیک منصوبے سے پاکستان ریلوے میں بھی بھاری سرمایہ کاری کی جا رہی ہے ۔ مخدوم خسرو بختیار خانپور کا جنکشن بحال کرائیں اور سی پیک منصوبے سے چاچڑاں ریلوے لائن کو کوٹ مٹھن ریلوے کے ساتھ لنک اپ کریں ۔ اسی طرح سرائیکی وسیب کی جو گاڑیاں بند ہوئی ہیں ، ان کو چالو کرایا جائے اور سی پیک منصوبے سے پشاور سے کراچی جانیوالی انڈس ہائی وے کو دو رویہ کرنے کے ساتھ ساتھ تھل سے گزرنے والی ملتان ‘ مظفر گڑھ ‘ میانوالی روڈ کو موٹر وے بنایا جائے اور اسے ڈی آئی خان کے راستے سے گزار کر تلہ گنگ اور بلکسر موٹر وے سے ملا دیا جائے ۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس خطے کے لوگوں کو آج تک ایک بھی موٹر وے کا منصوبہ نہیں ملا ۔ اسی طرح بہاولپور کے ساتھ ظلم کیا گیا کہ اسے سی پیک منصوبے سے ہی نکال دیا گیا ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ بہاولپور کو بھی سی پیک منصوبے میں شامل کیا جائے ۔ جہاں تک مخدوم خسرو بختیار کے اپنے حلقے کے ایک ووٹر کا یہ مطالبہ ہے کہ سی پیک اور دریا برد ہونیوالی زمینوں کے مالکان کو متاثرین قرار دیکر چولستان میں زمینیں دی جائیں تو یہ مطالبہ کسی بھی لحاظ سے غلط نہیں ہے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ وفاقی دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد شفٹ کیا گیا تو اسلام آباد متاثرین کو رقبے سرائیکی علاقوں میں دیے گئے ۔آج بھی ملتان وہاڑی اور خانیوال میں اسلام آباد متاثریں کے چکوک موجود ہیں اس کے علاوہ چولستان میں منگلا ڈیم تربیلا ڈیم اوکاڑہ چھائونی اور پٹ فیڈرنہر متاثرین کو رقبے چولستان میں دیے گئے اور آج بھی ان متاثرین کے چکوک انہی ناموں کے ساتھ چولستان میں موجود ہیں ۔اس کے علاوہ یہ ظلم بھی دیکھئے ممتاز بھٹو جب سندھ کے وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے پنجابی آباد کارو ں سے غیر قانونی طور پر الاٹ کی گئی زمینیں چھین لیں ۔بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق آئے توانہوں نے سندھ متاثرین کوبھی رقبے چولستان میں دیے ‘اس مقابلے میں وسیب کے حقداروں کو زمین نہیں دی جاتی ۔سرائیکی وسیب میں قیامت خیز سیلاب آئے ہزاروں گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے کروڑوں لوگ متاثر ہوئے ۔اس کے علاوہ لاکھوں ایکڑ زمینیں دریا برد ہوئیں مگر آج تک سرائیکی وسیب کے کسی ایک شخص کو کلیم میں ایک مرلہ زمین تک نہیں دی گئی ۔سوال یہ ہے کہ کیا سرائیکی وسیب کے لوگ پاکستانی نہیں ہیں ؟ وسیب کے لوگ کہتے ہیں کہ امتیازی سلوک بند ہونا چاہیے ۔مخدوم خسرو بختیار ،شاہ محمود قریشی اور سردار عثمان بزدار و دیگر کو موقع ملا ہے ۔تو وہ کچھ کر کے جائیں وسیب کے لوگ اور کچھ نہیں محض انصاف کے طلب گار ہیںیہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سرائیکی وسیب کے جاگیر دار اور تمن دار وں کا پہلے سے ریکارڈ خراب ہے ۔71سالوں سے وسیب کے جاگیر دار بر سر اقتدار ہوتے آرہے ہیں ۔مگر انہوں نے آج تک وسیب کی ترقی اور وسیب میں پائی جانے والی غربت کے خاتمے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا ۔تاریخی حوالوں سے ایسے واقعات بھی موجود ہیں کہ وسیب کے جاگیر دار بر سر اقتدار آکر وسیب میں تعلیم مواصلات اور روزگار کے منصوبوں کی مخالفت اس بناء پر کرتے رہے کہ اگر یہ سب کچھ ہو گیا تو ہمیں’’ سائیں ‘‘کون بولے گا ۔اس بناء پر وسیب کے شاعر نے لکھا : شالا مرن ساڈٖے وڈٖے جیڑھے ساڈٖے چئی پن تڈٖے ساڈٖے کیتے اِتھ سردار اِن تخت لاہور دے چوکیدار اِن ایک اور شاعر نے لکھا ’’اساں قیدی تخت لاہور دے نئیں ‘ساکوں اپڑیں گھانڑیں وات ڈٖتے ‘‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ وسیب کے لوگ تخت لاہور کے قیدی نہ تھے ،مگر اس خطے کے سرداروں نے انہیں تخت لاہور کاقیدی اور دست نگر بنوایا۔ بارِ دیگر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مخدوم خسرو بختیار اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور ترقی کے حوالے سے نئی سوچ رکھتے ہیں ۔ ان کو موقع ملا ہے تو وہ اپنے علاقے کے لئے جتنا کر سکتے ہیں کریں ۔ اگر انہوں نے بھی روائتی جاگیرداروں کی طرح کچھ نہ کیا تو پھر وسیب کے لوگ معاف نہیں کریں گے کہ یہ اکیسویں صدی اور سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ۔ ہماری دعا ، تمنا اور التجا یہی ہے کہ اپنے علاقے کو اس کا حق دیں تاکہ کسی اور شاعر کو ان کے لئے وہ ’’ دعائیہ کلمات ‘‘ ادا نہ کرنے پڑیں جن کا تذکرہ اوپر ہوا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ