یہ یُوٹرن بھی بڑی کام کی شے ہے۔ ہم ملتان والوں سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے کہ یوٹرن کتنی مفید شے اور کتنی کارآمد چیز ہے۔ جب ملتان میٹرو بس کا روٹ زیر تعمیر تھا تو میں تب اس پراجیکٹ کے مدارالمہام، کمشنر ملتان‘ جو میرے دوست بھی تھے‘ کے پاس گیا اور کہا کہ یہ پراجیکٹ ویسے تو بالکل نامعقول، نامناسب اور بلاضرورت ہے لیکن جب یہ بن ہی رہا ہے تو اس میں موجود کئی تکنیکی سقم اور خرابیاں دور کر لی جائیں تو اس کی افادیت پر تو خیر کیا اثر پڑے گا ہماری وہ مشکلات‘ جو اس فضول پراجیکٹ کے طفیل ہم پر مسلط ہو گئی ہیں‘ کچھ کم ہو جائیں گی اور ٹریفک کے حوالے سے ممکنہ دشواریاں اور خرابیاں کسی حد تک دور ہو جائیں گی۔ کمشنر صاحب نے وعدہ کیا اور میری ایک عدد میٹنگ اس پراجیکٹ کے چیف انجینئر صابر خاں سدوزئی سے کروائی۔ میں نے اپنی معروضات‘ جو محض کامن سینس پر مبنی تھیں‘ بالتفصیل پیش کر دیں۔ سدوزئی نے ساری بات غور سے سنی اور کہا کہ آپ کی باتیں سو فیصد درست ہیں‘ لیکن آپ بالکل پریشان نہ ہوں‘ ہم آپ کے ان تمام تحفظات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا تکنیکی حل نکالیں گے‘ اور اہلِ ملتان کو اس پراجیکٹ کی تکمیل پر کوئی ایسا مسئلہ درپیش نہیں رہے گا‘ جو آپ بیان کر رہے ہیں۔
پراجیکٹ دھڑا دھڑ تکمیل پذیر ہوتا رہا۔ شہباز شریف صاحب کا ڈنڈا تھا اور پراجیکٹ والوں کی پھرتیاں۔ ایک دو ماہ بعد پھر حاضری دی کہ میں نے ملتان میں ہی جینا مرنا تھا اور مجھے علم تھا کہ میاں شہباز شریف کی خوشنودی حاصل کرنے اور ان کی ڈانٹ پھٹکار سے بچنے کے شوقین یہ سارے افسران یہ پراجیکٹ مکمل کرکے شہباز شریف صاحب سے شاباش لیں گے‘ فیتا کٹوائیں گے‘ اور کہیں اور اچھی پوسٹنگ پر روانہ ہو جائیں گے۔ یہ ساری خرابیاں بعد میں ہم اہل ملتان نے بھگتنی ہوں گی۔ اگلی بار ملا تو کمشنر صاحب نے فرمایا کہ سدوزئی نے کہا ہے کہ وہ بوسن روڈ پر آپ کے نشاندہی کردہ مقامات پر ”مشی گن یوٹرن‘‘ بنائے گا۔ میں خوش ہو گیا کہ چلیں یہ تو بہت اچھا ہوا۔ میں بارہا مشی گن گیا تھا اور یوٹرن بھی دیکھے تھے مگر کبھی یہ غور نہ کیا تھا کہ ان یوٹرنز میں کیا خاص بات ہے۔ گھر آ کر گوگل پر مشنی گن یوٹرن کا مطالعہ کیا۔ ایک دو ایسے دوستوں سے‘ جو امریکی ریاست مشی گن میں مقیم تھے‘ پتا کیا تو معلوم ہوا کہ یہ ٹریفک انجینئرنگ کے حوالے سے بہت زیادہ ”ٹریفک دوست‘‘ یوٹرن ہے۔ میں بڑا خوش ہوا کہ ہم ملتان والوں کو اب تک کے سب سے بہتر یوٹرن سے مستفید ہونے کا موقع ملے گا؛ تاہم زیادہ تحقیق کی تو یہ خوشی ایک دم مایوسی میں بدل گئی۔ مشی گن یوٹرن کے لیے جتنی جگہ درکار تھی اگر بوسن روڈ پر میٹرو کی تکمیل کے بعد اتنی جگہ بچی ہوتی تو کوئی مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا‘ لیکن اصل مصیبت یہی تھی کہ جگہ ہی نہیں تھی اور مزید جگہ خریدنے کا عمل ختم ہو چکا تھا۔ میں بارہا پراجیکٹ ڈائریکٹر اور پراجیکٹ انجینئر سے ملتا رہا۔ وہ ہر بار مجھے ”گولی‘‘ دیتے رہے تاوقتیکہ پراجیکٹ مکمل ہوا۔ میاں صاحب نے اس کا افتتاح کیا اور کھیل ختم پیسہ ہضم۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر کسی اچھی پوست پر ہیں۔ سدوزئی جیل سے نکل کر ضمانت پر ہیں‘ اور ہم اہل ملتان مصیبت میں ہیں۔ ”مشی گن یوٹرن‘‘ ابھی تک مشی گن میں ہی ہے۔
چوہدری بھکن سے کل کافی دن بعد ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا: چوہدری! یار یہ بتا‘ یہ وزیراعظم کے یوٹرن کا کیا قصہ ہے؟ چوہدری کہنے لگا: یہ جو یوٹرن ہے یہ بڑے لوگوں کی باتیں ہیں‘ تیرے میرے جیسا ”مہاتڑ‘‘ یوٹرن نہیں لے سکتا۔ جوتے پڑیں گے اور بے عزتی بھی ہو گی۔ یہ بڑے لوگوں کو سجتا ہے اور انہی کے لیے بنا ہے۔ جب حکومت والے‘ میرا مطلب ہے پرانی حکومت والے نون لیگیئے عمران خان کو یوٹرن کے طعنے دیتے تھے تب فواد چودھری اینڈ کمپنی‘ میرا مطلب ہے عمران خان کا صفائی برگیڈ‘ سارے کا سارا صفائی دیتا تھا کہ حکومتی طبلچی برگیڈ یعنی دانیال عزیز اینڈ کمپنی ہمیں بدنام اور خوار کرنے کے لیے یوٹرن کا الزام لگاتے ہیں۔ سب یہ لوگ یوٹرن پر اپنی صفائیاں دیتے تھے اور اب یہی سارے یوٹرن جیسی اعلیٰ و ارفع چیز کی تعریفیں کرتے دم نہیں لیتے۔ تو عزیزم! یہ ہوتا ہے یوٹرن۔
پہلے صرف عمران خان صاحب مسٹر یوٹرن تھے‘ اب ان کے اس بیان کے بعد کہ جو یوٹرن نہ لے وہ کبھی بڑا لیڈر نہیں ہوتا‘ ساری کی ساری ٹیم‘ جو گزشتہ چھیانوے دنوں کی حکمرانی کے دوران اپنی کارکردگی سے یہ ثابت کر چکی ہے کہ وہ مکمل طور پر ”فارغ‘‘ ہے‘ کے ارکان اب یوٹرن لے کر خود کو بڑا لیڈر ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حکمران کوئی بھی ہو‘ اس کی ٹیم اسے اس کی غلطی بتانے یا سمجھانے کے بجائے اس کی غلطیوں کا صرف دفاع ہی نہیں کرتی بلکہ اس کی غلطیوں میں عظیم قسم کی خوبیاں تلاش کرکے لاتی ہے۔ اس کی خرابیوں کو رنگین پُھندنے لگاتی ہے اور اسے تاریخی حوالوں سے دنیا کی عظیم شخصیات سے تشبیہ دیتی ہے۔ یہی حال اب یوٹرن والے معاملے کا ہے۔ کل تک جو چیز طعنہ تھی‘ آج خوبی ہے۔ کل تک جو چیز خرابی تھی، آج عظمت کی نشانی ہے۔ ہمارے ہاں پارٹی لیڈر کی ہر خرابی کو بھی ہاتھی دانت کا دستہ لگا ہوتا ہے۔
چوہدری بھکن کہنے لگا کہ ایک بات ماننے والی ہے‘ اپنا نواز شریف بھی کانوں کا بڑا کچا ہے۔ میرا خیال تھا کہ صرف عمران خان کانوں کا کچا ہے اور سنی سنائی پر یقین کرکے آگے تقریر فرما دیتا ہے لیکن یہ میاں نواز شریف تو عمران خان سے بھی کہیں زیادہ کانوں کا کچا ثابت ہوا ہے۔ عمران خان تو اپنے لوگوں کی باتوں پر آنکھ بند کرکے یقین کر لیتے ہیں‘ میاں نواز شریف کو دیکھو؟ عمران خان کی بات پر آنکھیں بند کرکے یقین کر لیا۔ میں نے حیرانی سے پوچھا: چوہدری! وہ کیسے؟ چوہدری کہنے لگا: لؤ نویں سنو! اللہ کے بندے تم کیسے صحافی ہو؟ میں نے کہا: چوہدری! میں پرائمری سکول والا صحافی ہوں۔ چوہدری نے حیران ہو کر پوچھا: یہ پرائمری سکول والے صحافی کون ہوتے ہیں؟ میں نے کہا: میرے جیسے۔ چوہدری زچ ہو کر کہنے لگا: یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ میں نے کہا: اچھا کوئی بات نہیں تو نہ سہی‘ تو یہ بتا کہ میاں نواز شریف نے عمران خان کی کون سی بات پر آنکھیں بند کرکے یقین کر لیا ہے؟ چوہدری بولا: یہ جو عمران خاں صاحب نے فرمایا ہے کہ ”بڑا لیڈر وہ ہے جو یوٹرن لیتا ہے‘‘ اپنے میاں نواز شریف نے جیسے ہی خان صاحب کا یہ بیان سنا‘ انہوں نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ بھی ”بڑے لیڈر‘‘ ہیں فوراً ہی یوٹرن لینے شروع کر دیے ہیں‘ اور نہ صرف یوٹرن لینے شروع کر دیے ہیں بلکہ برسر عدالت یوٹرن لینے شروع کر دیے ہیں۔ انہوں نے احتساب عدالت میں بیان دیا ہے کہ ان کی قومی اسمبلی والی تقریر کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنایا جائے۔ یہ تقریر انہوں نے سنی سنائی باتوں پر کی تھی۔ وہ اپنی قومی اسمبلی میں کی گئی اس تقریر سے‘ جس میں انہوں نے اپنا وہ والا شہرۂ آفاق جملہ بولا تھا کہ ”جناب یہ ہیں وہ ذرائع جن سے یہ پراپرٹی خریدی گئی‘‘ منحرف ہو گئے ہیں۔ اب وہ ان ”ذرائع‘‘ سے لاتعلق اور توبہ تائب ہو گئے ہیں اور وہ قطری خط‘ جس کا زمانہ مذاق اڑاتا تھا اور سارے مسلم لیگی جسے اس لئے مقدس سمجھتے تھے کہ اس میں قطری شہزادے کا نام عربی میں چھپا ہوا تھا‘ خود میاں صاحب نے رد کر دیا ہے۔ جب جے آئی ٹی اس خط کو نہیں مانتی تھی تب میاں صاحب کا طبلچی برگیڈ جے آئی ٹی کو پارٹی قرار دیتا تھا‘ اب خود میاں نواز شریف نے اس قطری خط سے اظہار لا تعلقی کرکے اپنے پہلے موقف پر یوٹرن لے لیا ہے۔
چوہدری کہنے لگا: یہ یوٹرن واقعی بڑی اچھی چیز ہے لیکن اس کیلئے ایک شرط ہے۔ میں نے پوچھا: وہ کون سی؟ چوہدری کہنے لگا: شرط بڑی سادہ ہے۔ میں نے کہا: اب بتا بھی دے۔ چوہدری کہنے لگا: یوٹرن بڑی، مفید اور کارآمد شے ہے‘ بشرطیکہ وہ سڑک پر ہو۔ میں نے ہنس کر کہا: چوہدری تیری بات بالکل ٹھیک ہے لیکن ایک بات تو بھی یاد رکھ۔ اگر یوٹرن دو بار لیا جائے تو بندہ وہیں واپس آ جاتا ہے‘ جہاں سے چلا تھا۔ دوسرا یوٹرن لیں تو ”کھوتی بوہڑ تھلے‘‘ آ جاتی ہے‘ لیکن ان سارے یوٹرنز میں ہم ملتان والوں کے مشی گن یوٹرن تو وہیں کے وہیں رہ گئے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ