ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے جہاں پاکستانی سیاست میں اور کئی چیزیں متعارف کروائیں وہیں ”جیالا‘‘ متعارف کروانے کا سہرا بھی انہی کے سر جاتا ہے۔ اب آپ اسے جو مرضی نام دیں۔ جیالا کہیں، متوالا کہیں یا کھلاڑی۔ بات ایک ہی ہے‘ یعنی ایسا سیاسی ورکر جو اپنی لیڈرشپ کا اندھا مقلد ہو، جان دینے پر تیار ہو، اس کی کسی خرابی پر معترض نہ ہو، اس کے بارے میں اپنی عقل استعمال کرنے کو باقاعدہ گناہ تصور کرتا ہو‘ اس کی غلطیوں کی تاویلیں دینے میں رتی بھر عار محسوس نہ کرتا ہو اور اپنے لیڈر کے مخالف کو راندہ درگاہ سمجھنے کے ساتھ قریب قریب واجب القتل سمجھتا ہو۔ ایسے شخص کیلئے انگریزی میں ایک لفظ ہے: Die hard بلکہ یہ لفظ بھی جیالے کا کماحقہ احاطہ نہیں کرتا مگر اس سے بہتر لفظ فی الوقت مجھے یاد نہیں آرہا۔
خدا جانے لوگوں کے ذہن میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ جو شخص آج حکومتِ وقت کی بہتری اور اس کی سمت درست کرنے کیلئے اس کے کسی غلط اقدام پر تنقید کرتاہے تو ضروری نہیں کہ اس کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہو‘ لیکن کسی بھی سیاسی ورکر کو (خواہ اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو) یہ باور نہیں کروایا جا سکتا کہ اس ملک میں کوئی شخص نیوٹرل بھی ہو سکتا ہے۔ اس عاجز نے میاں صاحبان کے دور اقتدار میں مسلسل ان پر تنقید کی۔ مفادات سمیٹنے کا معاملہ ہوتا تو ان کی کاسہ لیسی اور چاپلوسی کی جاتی۔ اب جبکہ ان کو اپنی پڑی ہوئی ہے اور ان کا مستقبل اڈیالہ براستہ نیب نظر آرہا ہے، تو ان پر تنقید کے کوڑے کب تک برسائے جا سکتے ہیں۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ وقت ماضی پر تبرا کرنے میں گزارنا پسند کرتے ہیں۔ حال اور مستقبل ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ پیپلز پارٹی آئی تو بجائے عوام کی حالت سدہارنے کے اسی ”پٹ پٹوکے‘‘ میں پڑی رہی کہ ملک کا سارا بیڑہ غرق ضیاء الحق کے گیارہ سالوں کے طفیل ہوا۔ اس سارے ”رنڈی رونے‘‘ سے کچھ حاصل وصول تو ہونا نہیں تھا۔ بہتر ہوتا کہ آگے کا سفر شروع کیا جاتا۔ ہوتا یہ ہے کہ ہر نئی حکومت اپنا زیادہ وقت جانے والوں کے بارے میں روتے پیٹتے گزارتی ہے اور ملک و قوم کا حال اور مستقبل بہتر کرنے کے بجائے ماضی کی مذمت میں مصروف رہتی ہے۔ گزشتہ حکومت کی خرابیاں اگر آپ کے لئے بہتری کا سبق نہیں بنتیں تو جانے والوں اور آنے والوں میں کوئی خاص فرق نہیں رہ جاتا۔ اس سے یہ مراد نہ لی جائے کہ خرابیاں کرنے والوں کو معاف کر دیا جائے، ان کی غلطیوں کو بُھلا دیا جائے اور ان کا احتساب نہ کیا جائے۔ لیکن یہ کام ان اداروں کو کرنے دیا جائے جو اس کام پر مامور ہیں اور حکومت خود کو ماضی میں پھنسائے رکھنے کے بجائے اس پروگرام پر عمل شروع کرے‘ جس کے لئے لوگوں نے ان کو منتخب کیا ہوتا ہے۔ حکمرانوں کا رویہ منفی نہیں مثبت ہونا چاہئے اور انہیں سارا وقت گزشتہ خرابیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے میں ضائع کرنے کے بجائے ان خرابیوں کو ٹھیک کرنے میں لگانا چاہئے اور کم از کم یہ آج کل تو نہیں ہو رہا۔
میرے گزشتہ کالم کے حوالے سے یورپ جیسے پڑھے لکھے اور مہذب معاشرے میں رہنے والے ایک قاری نے جس قسم کی زبان استعمال کی‘ اس سے ہی دراصل مجھے ”جیالا‘‘ یاد آیا ہے؛ تاہم ستر کی دھائی کے جیالے کو رعایتی نمبروں سے پاس کیا جا سکتا تھا کہ تب ان کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ تھی اور اسے نئی نئی سیاسی آزادی کا احساس ہوا تھا لیکن آج لگ بھگ نصف صدی گزرنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ اس دوران تعلیم سے قطع نظر کچھ بھی نہیں بدلا۔ جیالا ایک سوچ کا نام ہے اور اس کا شاید ہمارے ہاں زمان و مکاں اور تعلیم و تربیت سے کچھ خاص لینا دینا نہیں ہے۔ وہی سوچ، وہی زبان، وہی تنگ نظری، وہی اندھی تقلید اور وہی لیڈر سے غیر مشروط وفاداری۔ افسوس کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ نصف صدی سیاست کے کارزار میں بے موت ماری گئی۔
ایک اور قاری کو گورنر ہاؤس کی دیوار گرانے پر میری تنقید پر بڑا غصہ تھا۔ وہ اسے اشرافیہ کی نشانی قرار دے کر گرانے کے حق میں جواز دے رہا تھا۔ میرا موقف اب بھی یہی ہے کہ حکومت کے پاس اس سے کہیں زیادہ ضروری کام ہیں‘ وہ کرنے چاہئیں۔ ویسے بھی عوام نے عمران خان کو ووٹ گورنر ہاؤس کی دیوار گرانے کے لئے نہیں بلکہ اس ملک سے کرپشن کے خاتمے، لوٹ مار سے نجات، مہنگائی‘ بے روزگاری سے چھٹکارے، قومی تشخص کی بحالی اور برابری کے حقوق کے حصول کے لئے دیئے تھے۔ سو دن میں لوگ امید کرتے تھے کہ یکساں نظام تعلیم کا نفاذ ہوگا۔ ہسپتالوں کا نظام بہتر ہوگا۔ انصاف کا حصول آسان اور ممکن ہو جائے گا۔ مہنگائی سے نجات ملے گی۔ بے روزگاری کم ہوگی۔ پولیس کلچر سے نجات ملے گی۔ درآمدات اور برآمدات کے درمیان بڑھتا ہوا فرق کم ہوگا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ کے قرضوں سے جان چھوٹے گی اور بگڑی ہوئی معیشت پٹڑی پر چڑھے گی۔ لیکن ہوا کیا؟ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ سب کو نظر آرہا ہے۔
گزشتہ سے پیوستہ روز کے اخبار میں آمنے سامنے دو اشتہار لگے ہوئے تھے۔ چوتھائی چوتھائی صفحے کے دو اشتہار۔ ایک کسانوں کی طرف سے کہ گنے کی کرشنگ فی الفور شروع کروائی جائے اور دوسرا شوگر ملز والوں کی طرف سے کہ ہمیں سبسڈی دی جائے۔ ایک ملین ٹن چینی برآمد کرنے کی ”غیر مشروط‘‘ اجازت دی جائے۔ ٹی سی پی پانچ لاکھ ٹن چینی خرید لے اور گنے کی قیمت کو چینی کی مقامی قیمت سے منسلک کرے‘ ورنہ ملیں چلانا ممکن نہیں اور حکومتی دبائو سراسر زیادتی ہوگی۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو بہتّر گھنٹوں میں حل ہونا چاہئے تھا کیونکہ اس سے گنے کے لاکھوں کاشتکاروں کا مستقبل وابستہ ہے۔ اس مسئلے سے ملک کی پوری شوگر انڈسٹری جڑی ہوئی ہے۔ دونوں سٹیک ہولڈرز یعنی کاشتکار اور مل مالکان، چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ فوری حل ہو۔ لیکن گندم، کپاس اور چاول کے بعد چوتھی بڑی فصل کھیتوں میں تیار کھڑی ہے اور اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کاشتکار کے پورے سال کی محنت برباد ہونے جا رہی ہے اور کسی کو رتی برابر فکر نہیں۔ پچیس لاکھ ایکڑ سے وابستہ کاشتکار پریشان ہیں۔ جزوی سا بھی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں گنے کی فی ایکڑ اوسط پیداوار چھ سو من کے لگ بھگ ہے۔ یعنی تقریباً ڈیڑھ سو ارب من گنا ملک عزیز کے کھیتوں میں کھڑا ہے اور ایک سو اسی روپے فی من (سرکاری نرخ) کے حساب سے اس فصل کی قیمت دو سو ستر ارب روپے سے زیادہ بنتی ہے جس کی سرکار کو کوئی فکر نہیں اور فکر ہو بھی کیسے؟ شنید ہے کہ حکومت میں موجود گنے کے کاروبار سے منسلک بلکہ صرف منسلک ہی نہیں بہت بڑے حصے دار جہانگیر ترین کی اس مسئلے پر اسد عمر سے باقاعدہ منہ ماری بھی ہوئی ہے۔ واللہ اعلم‘ اس بات میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا افسانہ؟
یہ وہ کام ہے جو بہتّر گھنٹوں کے نوٹس پر ہونا چاہئے تھا لیکن ہوا کیا؟ بہتّر گھنٹوں میں گورنر ہاؤس کی دیوار گرانے کا حکم جاری ہوگیا۔ اگر یہ دیوار تھوڑے دن بعد گرائی جاتی تو کیا نقصان ہوتا؟ گنے کی فصل کی دیر سے کٹائی کا دوسرا نقصان یہ ہوگا کہ کھیت اگلی فصل کے لئے فارغ نہیں ہوں گے اور اگلی فصل بھی برباد ہو جائے گی۔ شہر میں رہنے والوں کو اس بات کا علم نہیں کہ موسمی حوالوں سے طے شدہ فصلوں کی کاشت میں یومیہ تاخیر سے پیداوار کتنی کم ہوتی ہے۔ کل صرف یہ فیصلہ ہوا کہ گنے کی کرشنگ فوراً شروع کی جائے۔ مگر کب؟ یہ فیصلہ ہنوز باقی ہے۔
گورنر ہاؤس کی دیوار بھلے گرائی جائے (ویسے اب اس پر ہائی کورٹ نے حکم امتناعی جاری کر دیا ہے) لیکن موجودہ حالات میں یہ کام بالکل ویسے ہی ہے جیسے گھر میں فاقے چل رہے ہوں‘ بچوں کی سکول کی فیس ادا کرنے کے پیسے جیب میں نہ ہوں‘ موٹر سائیکل مرمت کی رقم نہ ہونے کے باعث گیراج میں کھڑی ہو‘ بیگم کے علاج کے لئے پیسے ہمسائے سے ادھار مانگے ہوں اور لان کی خوبصورتی کے لئے ڈھاکے کی گھاس خریدنے کا اعلان کر دیا جائے۔ محدود وسائل میں سب سے پہلا کام ترجیحات کا درست تعین ہوتا ہے۔ بس اس عاجز کی صرف اتنی سی استدعا ہے کہ پہلے والے کام پہلے اور بعد والے بعد میں کئے جائیں۔ یہ فرمائش ایسی نہیں کہ جس پر ”پٹواری‘‘ ہونے کا طعنہ دیا جائے لیکن اگر اس یاددہانی پر پٹواری کا طعنہ ملتا ہے تو ”فیر پٹواری تے پٹواری ای سہی‘‘۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ