ریاست مدینہ! کیا طمانیت ہے اس لفظ میں۔ دل میں ٹھنڈ سی پڑ جاتی ہے۔ میرے آقا کی قائم کردہ ریاست جس میں آقا اور غلام کو عدل و انصاف کے حصول میں ایک دوسرے پر فضیلت نہیں تھی۔ جس میں کمزور کی گائے اگر زورآور کے قبضہ کردہ علاقے میں داخل ہو جائے تو نہ کوتوال زور آور کی بات سنتا تھا اور نہ ہی منصف۔ نہ حکمران کوتوال کو فارغ کر سکتا تھا اور نہ ہی کالے کو گورے پر نہ عربی کو عجمی پر فضیلت تھی۔ جہاں دجلہ کے کنارے اگر کتا بھوکا ہو تو مدینہ میں مقیم حکمران اس کوتاہی پر جوابدہ تھا۔ جہاں اگر بوڑھا یہودی خیرات مانگتا نظر آئے تو ابن خطاب بے قرار ہو کر کہے: یہ ممکن نہیں کہ جوانی میں اس نے ہمیں جزیہ دیا ہو اور بڑھاپے میں خیرات مانگے‘ اس کا بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا جائے۔ بھلا ایسی ریاست کی بات ہو تو دل میں ٹھنڈ کیسے نہ پڑے؟ پاکستان تو بنا ہی اسلام کے نام پر تھا اور اب اگر اکہتر سال بعد یہ ریاست اپنے قیام کا مقصد حاصل کر لے تو بھلا اس سے زیادہ خوشی کی کیا بات ہو سکتی ہے؟ سو جب یہ عاجز پاکستان کی ریاست کو ”ریاست مدینہ“ میں تبدیل ہونے کا سنتا ہے تو اس کے دل میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے۔
کسی کی نیت پر شبہ کرنا نہایت ہی نامعقول اور عقل سے ماورا حرکت ہے۔ جب عمران خان کہتے ہیں کہ میں پاکستان کو ریاست مدینہ جیسا بنانا چاہتا ہوں تو بھلا اس پر شک کرنے والا میں کون ہوتا ہوں؟ مجھے اس خوش کن اعلان سے تب تک تو صرف مثبت امیدیں ہیں جب تک کہ حقائق کچھ اور نہ کہیں اور ایمانداری کی بات ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے اعلان کے علاوہ اب تک کوئی مثبت پیش رفت تو ایک طرف رہی اقدامات کے حوالے سے اس اعلان کے بالکل ا±لٹ صورتحال دکھائی دے رہی ہے۔عمران خان کی اعلان کردہ ریاست مدینہ میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ شراب پر پابندی لگانے کا بل اسمبلی میں نامنظور ہوگا‘ اسلامیات کا مضمون غیر مسلم اقلیت پڑھائے گی۔ ریاست چودہ سو سینما بنائے گی۔ کرسمس کا تہوار سرکاری سطح پر منانے کا حکم جاری ہوگا اور بسنت کا تہوار ایک بار پھر منایا جائے گا۔ یہ سب کچھ ریاست مدینہ میں ہوگا۔
پنجاب میں محکمہ تعلیم نے مرد لیکچررز کی 1206اور خواتین لیکچررز کی 1772یعنی کل 2978لیکچررز کی اسامیوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔یہ نوٹیفکیشن مورخہ بارہ دسمبر2018ءکو جاری ہوا۔ ان اسامیوں میں اسلامیات/ اسلامک سٹڈیز کی 104اسامیاں ہیں جس میں 96اوپن میرٹ کی ہیں، تین معذوروں کی اور پانچ اقلیتی امیدواروں کے لیے مخصوص ہیں۔ یعنی اب صورتحال یہ ہوگی کہ اسلامیات غیرمسلم اقلیتی پروفیسر پڑھائیں گے۔ اس سے پہلے ریاست پاکستان کی تاریخ میں اسلامیات اور اسلامک سٹڈیز پڑھانے کے لیے کبھی غیر مسلم لیکچررز بھرتی نہیں ہوئے تھے۔ اور بھرتی بھی کیسے ہوتے؟ پاکستان کے سکولوں اور کالجوں میں غیر مسلم طلبا کو (علاوہ مرزائی طلبہ) یہ مضامین پڑھائے ہی نہیں جاتے ہندو، سکھ، عیسائی اور پارسی طلبہ اسلامیات کے بجائے مطالعہ پاکستان وغیرہ پڑھتے ہیں۔ اس غیر مسلم اقلیتی کوٹہ میں ظاہر ہے ہندو، سکھ، عیسائی یا پارسی امیدوار تو اپلائی ہی نہیںکر سکیں گے کہ انہوں نے یہ مضمون سرے سے پڑھا ہی نہیں۔ اب رہ گئے مرزائی۔ یعنی اب اسلامیات مرزائی اقلیتی لیکچررز کے سپرد ہوگی۔ قرآن و حدیث کی تشریح و ترجمہ اب ان کے ہاتھ میں ہوگا جو اسلام کی بنیادی روح ”ختم نبوت“ کے منکر ہیں۔ فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، ریاضی، اردو، انگریزی، سیاسیات، اقتصادیات اور اسی طرح دیگر بہت سے مضامین ایسے ہیں جہاں اقلیتوں کے لیے کوٹہ بھی موجود ہے اور اس پر کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں لیکن اب یہ ہونے جا رہا ہے کہ ”ریاست مدینہ“ میں اسلامیات پڑھانے کی ذمہ داری غیر مسلم لیکچررز کے کندھوں پر آن پڑے گی۔ مجھے تو یہ بھی گمان ہے کہ کوئی وزیر کہیں سے یہ دور کی کوڑی نہ ڈھونڈ لائے کہ ریاست مدینہ میں جنگ بدر کے قیدیوں سے ان پڑھ مسلمانوں کو پڑھانے کا کام لیا گیا تھا اور یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ تب غیر مسلم قیدیوں کو مدینے کے ان پڑھ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی نہ کہ قرآن و حدیث کی تشریح کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والا اقلیتی نشست پر منتخب ایم این اے ڈاکٹر رمیش کمار دھائی دیتا رہا کہ پاکستان میں غیر مسلموں کو مذہب کے نام پر شراب پینے اور استعمال کرنے کی جو چھوٹ دی گئی ہے وہ سراسر امتیازی سلوک ہے جو ہمارے ساتھ روا رکھی جا رہی ہے۔ہندو، سکھ اور عیسائی مذہب میں کہیں شراب نوشی کی اجازت نہیں اور ہمارے (غیر مسلموں کے) نام پر پاکستان میں شراب کی فروخت کی اجازت اور اجازت نامے سب غلط ہیں۔ اس بل پر اسمبلی میں رائے شماری کروائے بغیر ہاں یا ناں کہلوا کر مسترد کر دیا۔ عمران خان کی ریاست مدینہ کی قومی اسمبلی میں قاسم سوری ڈپٹی سپیکر کی سربراہی میں یہ قرارداد بھاری اکثریت سے مسترد کر دی گئی۔ رمیش کمار آخر دم تک شور مچاتا رہا مگر اس کی سننے کے بجائے ڈپٹی سپیکر نے اسمبلی کی کارروائی آگے بڑھانے کا اعلان کر کے رمیش کمار کی پیش کردہ قرارداد کا گلا گھونٹ دیا۔
فیاض الحسن چوہان صاحب کا پس منظر بڑا مذہبی ہے‘ لیکن اب وہ اپنے اس مذہبی پس منظر سے جان چھڑوانے اور خود کو روشن خیال، ترقی پسند اور لبرل ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ کبھی فلمسٹار نرگس سے معافی مانگتے ہیں ‘ کبھی بسنت کا اعلان کر دیتے ہیں اور کبھی سینما بنانے کا۔ سچ تو یہ ہے کہ بسنت نہ تو ثقافتی تہوار ہے اور نہ ہی موسم کا۔ اگر یہ موسمی یا ثقافتی تہوار ہوتا تو صرف اور صرف لاہوریوں کا ہی کیوں ہوتا؟ پورے برصغیر سے ہندو آخر کوٹ خواجہ سعید لاہور میں ہی کیوں جمع ہو کر یہ تہوار مناتے تھے؟ اگر یہ موسم کا تہوار تھا تو پورے برصغیر کو تو چھوڑیں کم از کم پورا پنجاب ضرور مناتا۔یہ حقیقت رائے (گستاخ رسول) کی پھانسی والے دن ہی کیوں منائی جاتی ہے اور صرف اسی شہر میں جہاں اسے پھانسی ہوئی کیوں منائی جاتی ہے؟ ریاست مدینہ میںیعنی میرے آقا سے موسوم شہر کے نام سے منسوب اس ریاست میں میرے آقا کے گستاخ کو پھانسی دینے پر اس کی یاد میں ہندوﺅں کی جانب سے منائے جانے والے پانچ ماگھ کے اس تہوار کو پھر سے شروع کئے جانے کا اعلان۔ انسانی جانوں کا ضیاع تو میرے نزدیک اس کا جزوی نقصان ہے اصل میں تو یہ ایک گستاخ رسول کو خراج تحسین پہنچانے کا تہوار تھا جسے سنت رسول سے مزین چہرے والا صوبائی وزیر بلا سوچے سمجھے دوبارہ جان ڈال کر منانے کا اعلان کر رہا ہے۔
یہ کیسی ریاست مدینہ ہے جس میں گورنمنٹ مسلمان سرکاری ملازمین کو کرسمس منانے کا پابند کر رہی ہے؟ کیا کبھی اس اسلامی ریاست نے اس میں رہنے والے غیر مسلموں عیدین منانے کا حکم دیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر اس ریاست کے مسلمانوں کو ایک قطعاً غیر اسلامی تہوار منانے پر کس طرح مجبور کیا جا سکتا ہے؟ گزشتہ سال تک پچیس دسمبر سرکاری طور پر قائداعظم ڈے کے طور پر منایا جاتا تھا اور ہمارے مسیحی پاکستانی بھائی اسے کرسمس کے طور پر مناتے تھے۔ یہ پہلا سال ہے کہ پاکستان ریاست مدینہ بنی ہے اور سرکار مملکت خداداد کے مسلمانوں کو کرسمس منانے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ ایک بہت دقیع اور تفصیل طلب موضوع ہے اور اسے ایک کالم میں سمونا بہت مشکل۔ سورہ مریم سے پانچ ا?یات (88تا 92)۔”اور یہ کہتے ہیں کہ اللہ بیٹا رکھتا ہے۔ ایسا کہنے والو تم زبان پر بہت بری بات لاتے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر پڑیں۔ انہوں نے رحمان کے لیے بیٹا تجویز کر ڈالا۔ اس رحمن کو شان نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے“۔
ریاست مدینہ مذہبی رواداری کا نمونہ تھی۔ ایسا نمونہ جہاں عیسائی اور یہودیوں کو مکمل مذہبی آزادی تھی مگر ایسی نہیں کہ مسلمانوں کو عیسائیوں کا مذہبی تہوار جو مسلمانوں کے نزدیک سراسر شرک ہے منانے پر مجبور کیا جائے۔ خان صاحب! ریاست مدینہ کی خود ساختہ تشریح سے معاف رکھیں۔ اسے ریاست مدینہ بنانا ہے تو پھر صرف ریاست مدینة النبی بنائیں یا پھر اسے پاکستان ہی رہنے دیں۔ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔
(بشکریہ:روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ