کرن خان صاحبہ کی کتاب ” محبت فاتحِ عالم “ پربات بعد میں کرتے ہیں پہلے دو اشعار ملاحظہ کیجیئے
پہلا شعر
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
اور دوسرا شعر
یقیں محکم ، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہیں مُردوں کی شمشیریں
قارئین ِ محترم حضرت اقبال کے شعر میں تحریف کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ فی زمانہ مردوں کے ذکر پر بعض خواتین ناراض اور بہت سی خوش بھی ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ صنفی تفریق یعنی جینڈر بیلنس کامسئلہ بھی پیدا ہوجاتا ہے اورہمارے ایک دوست کاکہنا ہے کہ جینڈربیلنس کا مسئلہ پیدا ہوجائے تو اسے حل کرنے کے لیے بہت سا بیلنس یعنی ایزی لوڈ بھی بھجواناپڑتا ہے۔ اس تقریب میں شرکت کے لیے مجھے بارہا سوچناپڑ ا پھر خیال آیا کہ اگر میں گزشتہ روز اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام ڈاکٹر اسلم انصاری کے فارسی کلام کی تعارفی تقریب میں اظہرسلیم مجوکہ کی دعوت پرشریک ہوسکتا ہوں۔ وہاں خوشامدیوں کی گفتگو برداشت کرسکتا ہوں تو اس تقریب میں بھی شریک ہوا جاسکتا ہے کہ یہاں تو مجھے دعوت بھی شاکر نے دی ہے جو اقبال کے شاہین کو ”شہین “ نہیں کہتا اور یہ کتاب بھی اردو کی ہے جو مجھے سمجھ بھی آتی ہے۔جب کہ ہماری فارسی کا حال تواس شعر جیسا ہے جس میں شاعر نے معنویت کو یکسرنظرانداز کرکے صرف قافیہ پیمائی پرتوجہ دی تھی اورکہا تھا
کھیت میں بیٹھا ہوا ہے ایک جوڑاسانپ کا
فارسی میں اسپ ہے اردو میں گھوڑا سانپ کا
دوبارہ اکادمی کی جانب آتے ہیں۔ اس تقریب میں جس جوش وخروش کے ساتھ مجھ سمیت وسیب کے قلمکاروں نے شرکت کی وہ بھی حیران کن تھی اوراس لیے حیران کن تھی کہ ہم خود سرکار کے ملازم ہیں اور سرکاری اداروں کی اوقات سے بخوبی واقف ہیں۔ اکادمی سمیت بعض سرکاری اداروں کے پاس اب دینے کے لیے صرف تسلیاں اور اعزازات ہیں اور اعزازات کاکیا ہے وہ تو آپ دوہزارروپے کی دس شیلڈیں بنوا کر کسی بھی فضول سی جگہ پر ضرورت مندوں میں تقسیم کے بعد سوشل میڈیا پران کی تصاویر کا جمعہ بازار لگاسکتے ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فی زمانہ بہت سی چیزیں بے معنی ہوگئی ہیں۔ اور بعض لوگوں نے تو کتاب کے تقدس کوبھی مجروح کردیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ستائیس اپریل کو ہونے والی اکادمی ادبیات کی تقریب میں ادیبوں کے بہت سے مسائل زیربحث آئے۔ صرف ایک حقیقی مسئلے پربات نہیں ہوئی اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ ادیب اور شاعر کے لیے کتاب کی اشاعت مشکل کیوں ہوگئی ہے ؟ اور کتنے ایسے قلمکار ہمارے گردونواح اورمضافات میں موجودہیں جن کے لیے کتاب چھپواناایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر وہ اپنی زندگی میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
کتاب کے بارے میں ہمارا ہمیشہ سے یہ موقف رہا کہ کتاب آپ کو خود اپنی گرفت میں لیتی ہے ۔ بعض کتابوں کامطالعہ شروع کریں تو رات گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوتا اوربعض کتابیں الجبرا کی طرح جبراً پڑھی یا پڑھائی جاتی ہیں۔
اب ”محبت فاتح عالم“کی جانب آتے ہیں جس کی تعارفی تقریب میں ہم موجودہیں۔ ہمارا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ جس کتاب پر اظہار خیال کرنا ہو اگر ہم وہ کتاب اپنی مصروفیات یا دیگر وجوہات کی بنا پرمکمل طورپرنہ پڑھ سکیں تواسے جستہ جستہ ضرور دیکھتے ہیں۔کرن خان صاحبہ کی اس کتاب کا بھی ہم نے مختلف مقامات سے جستہ جستہ مطالعہ کیا۔کرن خان چونکہ ہمارے وسیب سے تعلق رکھتی ہیں اس لیے اس کتاب میں ہمیں وسیب کے بہت سے رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ کتاب میں جاگیر دار کی حویلی ،پنچایت ،ناقابل اشاعت گالیوں اوردس کی بجائے بیس کوڑے مارنے کا ذکر موجودہے۔یہ کتاب سچی محبت کی کہانی ہے۔ یہ آپ بیتی ہے یاخودنوشت۔میں اس بحث میں نہیں پڑتا۔ لیکن بہر حال یہ گھریلوزندگیوں کی سچی اور خوبصورت کہانی ہے۔ اس میں ساس بہو کے معاملات سمیت بہت سے کرداروں کے وہ روئیے بھی زیر بحث لائے گئے جو روز مرہ زندگی میں اکثر ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں ۔ اور اگر ملتان کی دو خواتین قلمکاروں کے بقول اس میں پروف ،گرامر یا املا کی غلطیاں موجودہیں تو مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ ان امور پر توجہ دینا ناشر کاکام ہے اورمیں جانتا ہوں کہ یہ کتاب پاکستان کے سب سے بڑے ناشر برادرم افضال احمد نے سنگ میل پبلی کیشنز کے زیراہتمام شائع کی ہے۔انہوں نے یقیناًاس کتاب کی اشاعت کو منعفت بخش سمجھا ہوگا وگرنہ وہ اسے کبھی شائع نہ کرتے۔اور حاضرین محترم ، یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ادب اب باقاعدہ کاروبار بن چکا ہے اورہم بھی اسی کاروبار کاحصہ بننے کے لیے ہی آج کی تقریب میں موجودہیں ۔ میں کرن خان صاحبہ کو ایک مزاح نگار کے طور پر جانتا ہوں اور اس حوالے سے ان کی صلاحیتوں کا معترف بھی ہو ۔ کتاب کی اشاعت پر میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے زمانے کی پرواہ کیے بغیر کاغذ اورقلم کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔میں نے ان کی پہلی کتاب مزاح نگر کی تعریف سنی ہے اور میں دوستوں کی اس رائے سے اتفاق کرتا ہوں کہ انہیں اپنےاستاد گلِ نوخیز اختر کی رہنمائی میں اپنی تمام توجہ مزاح پر مرکوز رکھنی چاہیئے ۔
پہلا شعر
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
اور دوسرا شعر
یقیں محکم ، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہیں مُردوں کی شمشیریں
قارئین ِ محترم حضرت اقبال کے شعر میں تحریف کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ فی زمانہ مردوں کے ذکر پر بعض خواتین ناراض اور بہت سی خوش بھی ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ صنفی تفریق یعنی جینڈر بیلنس کامسئلہ بھی پیدا ہوجاتا ہے اورہمارے ایک دوست کاکہنا ہے کہ جینڈربیلنس کا مسئلہ پیدا ہوجائے تو اسے حل کرنے کے لیے بہت سا بیلنس یعنی ایزی لوڈ بھی بھجواناپڑتا ہے۔ اس تقریب میں شرکت کے لیے مجھے بارہا سوچناپڑ ا پھر خیال آیا کہ اگر میں گزشتہ روز اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام ڈاکٹر اسلم انصاری کے فارسی کلام کی تعارفی تقریب میں اظہرسلیم مجوکہ کی دعوت پرشریک ہوسکتا ہوں۔ وہاں خوشامدیوں کی گفتگو برداشت کرسکتا ہوں تو اس تقریب میں بھی شریک ہوا جاسکتا ہے کہ یہاں تو مجھے دعوت بھی شاکر نے دی ہے جو اقبال کے شاہین کو ”شہین “ نہیں کہتا اور یہ کتاب بھی اردو کی ہے جو مجھے سمجھ بھی آتی ہے۔جب کہ ہماری فارسی کا حال تواس شعر جیسا ہے جس میں شاعر نے معنویت کو یکسرنظرانداز کرکے صرف قافیہ پیمائی پرتوجہ دی تھی اورکہا تھا
کھیت میں بیٹھا ہوا ہے ایک جوڑاسانپ کا
فارسی میں اسپ ہے اردو میں گھوڑا سانپ کا
دوبارہ اکادمی کی جانب آتے ہیں۔ اس تقریب میں جس جوش وخروش کے ساتھ مجھ سمیت وسیب کے قلمکاروں نے شرکت کی وہ بھی حیران کن تھی اوراس لیے حیران کن تھی کہ ہم خود سرکار کے ملازم ہیں اور سرکاری اداروں کی اوقات سے بخوبی واقف ہیں۔ اکادمی سمیت بعض سرکاری اداروں کے پاس اب دینے کے لیے صرف تسلیاں اور اعزازات ہیں اور اعزازات کاکیا ہے وہ تو آپ دوہزارروپے کی دس شیلڈیں بنوا کر کسی بھی فضول سی جگہ پر ضرورت مندوں میں تقسیم کے بعد سوشل میڈیا پران کی تصاویر کا جمعہ بازار لگاسکتے ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فی زمانہ بہت سی چیزیں بے معنی ہوگئی ہیں۔ اور بعض لوگوں نے تو کتاب کے تقدس کوبھی مجروح کردیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ستائیس اپریل کو ہونے والی اکادمی ادبیات کی تقریب میں ادیبوں کے بہت سے مسائل زیربحث آئے۔ صرف ایک حقیقی مسئلے پربات نہیں ہوئی اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ ادیب اور شاعر کے لیے کتاب کی اشاعت مشکل کیوں ہوگئی ہے ؟ اور کتنے ایسے قلمکار ہمارے گردونواح اورمضافات میں موجودہیں جن کے لیے کتاب چھپواناایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر وہ اپنی زندگی میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
کتاب کے بارے میں ہمارا ہمیشہ سے یہ موقف رہا کہ کتاب آپ کو خود اپنی گرفت میں لیتی ہے ۔ بعض کتابوں کامطالعہ شروع کریں تو رات گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوتا اوربعض کتابیں الجبرا کی طرح جبراً پڑھی یا پڑھائی جاتی ہیں۔
اب ”محبت فاتح عالم“کی جانب آتے ہیں جس کی تعارفی تقریب میں ہم موجودہیں۔ ہمارا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ جس کتاب پر اظہار خیال کرنا ہو اگر ہم وہ کتاب اپنی مصروفیات یا دیگر وجوہات کی بنا پرمکمل طورپرنہ پڑھ سکیں تواسے جستہ جستہ ضرور دیکھتے ہیں۔کرن خان صاحبہ کی اس کتاب کا بھی ہم نے مختلف مقامات سے جستہ جستہ مطالعہ کیا۔کرن خان چونکہ ہمارے وسیب سے تعلق رکھتی ہیں اس لیے اس کتاب میں ہمیں وسیب کے بہت سے رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ کتاب میں جاگیر دار کی حویلی ،پنچایت ،ناقابل اشاعت گالیوں اوردس کی بجائے بیس کوڑے مارنے کا ذکر موجودہے۔یہ کتاب سچی محبت کی کہانی ہے۔ یہ آپ بیتی ہے یاخودنوشت۔میں اس بحث میں نہیں پڑتا۔ لیکن بہر حال یہ گھریلوزندگیوں کی سچی اور خوبصورت کہانی ہے۔ اس میں ساس بہو کے معاملات سمیت بہت سے کرداروں کے وہ روئیے بھی زیر بحث لائے گئے جو روز مرہ زندگی میں اکثر ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں ۔ اور اگر ملتان کی دو خواتین قلمکاروں کے بقول اس میں پروف ،گرامر یا املا کی غلطیاں موجودہیں تو مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ ان امور پر توجہ دینا ناشر کاکام ہے اورمیں جانتا ہوں کہ یہ کتاب پاکستان کے سب سے بڑے ناشر برادرم افضال احمد نے سنگ میل پبلی کیشنز کے زیراہتمام شائع کی ہے۔انہوں نے یقیناًاس کتاب کی اشاعت کو منعفت بخش سمجھا ہوگا وگرنہ وہ اسے کبھی شائع نہ کرتے۔اور حاضرین محترم ، یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ادب اب باقاعدہ کاروبار بن چکا ہے اورہم بھی اسی کاروبار کاحصہ بننے کے لیے ہی آج کی تقریب میں موجودہیں ۔ میں کرن خان صاحبہ کو ایک مزاح نگار کے طور پر جانتا ہوں اور اس حوالے سے ان کی صلاحیتوں کا معترف بھی ہو ۔ کتاب کی اشاعت پر میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے زمانے کی پرواہ کیے بغیر کاغذ اورقلم کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔میں نے ان کی پہلی کتاب مزاح نگر کی تعریف سنی ہے اور میں دوستوں کی اس رائے سے اتفاق کرتا ہوں کہ انہیں اپنےاستاد گلِ نوخیز اختر کی رہنمائی میں اپنی تمام توجہ مزاح پر مرکوز رکھنی چاہیئے ۔
فیس بک کمینٹ