عمران خاں صاحب کی ’’خوش گفتاری‘‘ پہلے ہی مشہور ہے۔ اس د فعہ انہوں نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ وہ بھی باشعور خواتین کے بارےمیں گفتگو کرتے ہوئے، ان کی زبان پھسل گئی یا پھر بی بی کی قدم بقدم نصیحتوں نے رنگ دکھایا ہے کہ پڑھی لکھی اور ذہنی طور پر پختہ خواتین کے بارےمیں ایسے گفتگو کی کہ چاروں طرف کے علاوہ اخبارات میں اس پڑھے لکھے شخص کی ان پڑھوں کی سی گفتگو کہیں سے بھی تو دادوتحسین حاصل نہ کرسکی ویسے وہ رفعیہ ذکریا کا مضمون پڑھ لیں۔
بہر حال ایک ضدی شخص نے ، دھرنا دینے والے عوام کی بات مانتے ہوئے ، کچھ علاقوں کے امیدواروں کے نام بدلنے کا وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح خواتین امیدواروں کی لسٹ نہ صرف تحریک انصاف بلکہ پی پی پی اور ن لیگ نے بھی یکسر بدل ڈالیں۔ موجودہ لسٹ دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پھوپھیوں اور بھانجیوں کے نام گھڑے میں سے قرعہ اندازی کے ذریعہ نکال کر، قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹیں دیدی گئی ہیں۔ ن لیگ کے پاس تو لگتا ہے کہ خواتین کی اتنی کمی ہوگئی تھی کہ ماں اور بیٹی دونوں کو ممبر بنانے کی سفارش کردی ۔ جو خواتین ان کے گھروں میں کام کرتی یا پھر کپڑوں کی ڈیزائننگ کرتی تھیں۔ ان کو بھی انعام کے طور پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی سیٹیں بالکل ایسے ہی دی ہیں کہ جیسے کے ۔پی میں تحریک انصاف نے اور پی پی پی نے ہر خاندان کے چار بندوں کو ٹکٹیں دےدی ہیں۔ ان کو بھی جو رقم کی خورد برد میں ڈرکر پاکستان سے چلی گئی تھیں، وہ پھر درگاہ پہ حاضری دیکر تیمم کرکے، مصلّے پہ آن بیٹھی ہیں۔مجھے حیرانی یہ ہے کہ کسی نے 35سال اور کسی نے چالیس سال میں یہی سیکھا ہے۔ دل خراش بات یہ ہے کہ اول تو ریزروسیٹ ہیں۔ان پر انوشہ رحمان، مریم بی بی، بشریٰ گوہربے مثل خواتین ہیں۔ البتہ ماروی میمن اور کشمالہ طارق کو سیاسی دکانداری میں نہیں، سیاسی قانون سازی میں مصروف کیا جاتا تو قوم کا اور پارٹیوں کا بھی بھلا ہوتا۔ ویسے تو جو لوگ پی پی پی چھوڑ کر تحریک انصاف میں گئے ہیں، انکے نام سنکر محاورہ زبان پر آجاتا ہے’’خس کم جہاں پاک‘‘۔ لگتا ہے اس وقت ساری پارٹیاں ان لوگوں پہ داؤ لگارہی ہیں جن کے ہاتھ میں پہلے ہی پچاس ہزار ووٹ ہیں، وہ چاہے کوئی دین ایمان نہ رکھتے ہوں اور جو یہ جوا کھیلنے کے لئے زر اور زور دونوں کی کفالت کرسکتے ہوں۔
دنیا میں ایسا کمپیوٹر بن چکا ہے جو ذہین آدمی کو بھی جواب دیکر لاجواب کردیتا ہے۔ اس کا توڑ، امیدواروں سے یہ سوال کرکے پاکستانی انتخابات لڑنے والوں کو دیا گیا ہے کہ آپ نے گزشتہ پانچ برس میں کون سے کام کیے ہیں۔ جھوٹ بولنے کے بجائے امیدواروں نے وہ سوال خالی چھوڑ دیا ہے۔ ایک اور حیرانی یہ ہوئی کہ موجود نگران بھی کوئی ٹوٹی پھوٹی کوڑی والے نہیں،بلکہ کروڑوں میں کھیلنے والے وہ با اثر شخصیات جن پر انگلی اٹھانا تو کجا، ایک حرف کی بھی طعنہ زنی نہیں کی جاسکتی ہے۔ مجھے اپنے آپ پر قناعت کی چھتری تان کے بیٹھنے پہ بڑا فخر محسوس ہوتا تھامگر اب افسوس یہ ہے کہ 38سال سرکاری ملازمت ان جگہوں پر کی، جہاں سب کچھ اپنے اختیار میں تھا پھر بھی گھر بنایا تو قرض لیکر، دفتر بنایا تو جی۔ پی فنڈ لیکر مگر جواب میں سامنے نوابزادہ نصراللہ کی نکلسن روڈ پر کٹیا، جسٹس کار نیلس کا پرانا کمرہ اور انڈیا کے صدر کلام صاحب کا صدارت چھوڑتے وقت، ٹین کا بکسہ یاد آرہا ہے۔ فقیرانہ آئے صدا کرچلے، میاں خوش رہو ہم دعا کرچلے۔یہ میڈیا کا زمانہ ہے۔ بند کمرے کی بات بھی کوٹھوں چڑھ جاتی ہے۔ ساری دنیا میں یہ کہانی ہے کہ کس امیدوار نے دو بیویاں کی ہوئی ہیں۔ کس نے ظاہر کی ہیں، کس نے ایسا راز رکھا ہے کہ ساری دنیا کو معلوم ہے۔ یہ الگ بات کہ معلوم ہونے کے باوجود اسکینڈل بن کر پریس میں نہیں آرہے ہیں۔ لوگ اس پر بھی لفافہ جرنلزم کا بہتان باندھ دیتے ہیں۔ اس وقت جبکہ سارے میڈیا ہائوسز میں خواتین اور مردوں کی تعداد تقریباً یکساں ہے۔ ایسے میں اینکر اور رپورٹر خواتین نہ شیخ رشید کی باتوں کو صحت مند مانتی ہیں اور نہ عمران خان کی۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ ایرانی خواتین فٹ بال میچ دیکھ کر شور مچارہی ہیں اور عرب خواتین ٹیلی وژن پر بھی آرہی ہیں اور گاڑیاں بھی چلارہی ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ ٹرمپ کی بیوی میلانیا بھی میکسیکو کے مہاجرین کو الگ قید کرنے3ماہ سے 10سال تک کے بچوں کو بے یارو مددگار چھوڑنے پہ سخت برہم ہے۔ ہمارا میڈیا کہنے کو آزاد ہے مگر تھپڑ مارنے سے لےکر غلیظ گفتگو کو روکنے سے قاصر ہے۔
اس وقت عوام کا شعور اس لئے جاگ رہا ہے کہ صاف چھوڑیں پانی ہی نہیں ہے، بجلی ہی نہیں ہے، خدا نہ کرے کہ اس دفعہ بھی یہ ہوکہ علاقے کا تھانیدار یا پٹواری ، لوگوں کے شناختی کارڈ چھین لیں کہ ہمارے بندے کو ووٹ دو، پھر یہ واپس ملےگا۔ عوام کچھ کرلیں تو حالات میں تبدیلی آئیگی ورنہ سیاسی پارٹیوں نے تو اب تک اپنا منشور ہی نہیں دیا ہے۔
ویسے بھی آج کل رمضان کے پکوڑوں کے بعد، جعلی ڈگریوں کا کاروبار خوب چل رہا ہے۔ بلی کو دیکھ کر چوہے نے آنکھیں بند کرلی ہیں۔ یہ پتہ کرنا ہے کہ بلی کون ہے اور چوہا کون۔ چیف جسٹس صاحب کو فرصت نہیں ہے، ورنہ ان سے اس مسئلے کا حل بھی معلوم کیا جاسکتا تھا۔ ہمارا دوست حسن عسکری تو عورتوں سے زندگی اور سیاست دونوں میں خوفزدہ ہے۔ اس لئے جو کابینہ بنائی اس میں ایک عورت بھی شامل نہیں کی۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ