2010ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران جب تمام حکمران پارٹیوں نے اتفاق رائے سے آئین میں 18ویں ترمیم کروائی تھی تو اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ صوبوں کو بیشتر شعبوں میں مکمل اختیارات ملیں گے۔ اگر ہم دس سال بعد کے حالات کا جائزہ لیں تو تمام صوبوں میں جہاں ”مختلف‘‘ پارٹیوں کی حکومتیں ہیں‘ وہاں انسانی زندگی کے لئے سب سے کلیدی‘ شعبہ صحت کہیں زیادہ بد تر کیفیت میں پہنچ گیا ہے۔ نہ صرف سرکاری شعبے میں صحت کارڈوں (جن سے بالواسطہ نجی شعبے کو نوازا جا رہا ہے) کے پراپیگنڈے کے باوجود عوام سرکاری نظامِ صحت کی سہولیات سے زیادہ محروم ہو چکے ہیں بلکہ اس عرصے میں علاج کے لئے آبادی کا وسیع تر حصہ اب براہِ راست نجی شعبے سے مہنگا علاج کروانے پر مجبور ہے۔ 2012ء میں پاکستان میں علاج کرانے والی آبادی کا 64.7 فیصد نجی شعبے سے رابطے پر مجبور تھا جبکہ 2017ء میں یہ تعداد اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اب 80 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہی صورتحال ہمیں مختلف علاقوں میں تعلیم، صاف پانی اور دوسری ضروریات کے معاملے میں نظر آتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نجی شعبے کے ارب پتی سیٹھوں کے اختیار میں موجود یہ تمام پارٹیاں اس ترمیم کے ذریعے ”جمہوری عمل‘‘ کی واردات میں اپنی منافع خوری کو تقویت دلوانے کے لئے راضی ہوئی تھیں۔ اگرچہ موجودہ انتخابی مہم میں عوام کے سلگتے ہوئے مسائل بڑی نحیف سی ”لپ سروس‘‘ تک محدود ہیں‘ لیکن جہاں تک مروجہ سیاست کی پارٹیوں کے منشوروں کا تعلق ہے تو وہ پُرفریب لفظوں کی جگالی پر مبنی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام پارٹیوں نے ڈٹ کر اپنے اپنے صوبوں میں براہِ راست اور بالواسطہ طور پر سرکاری صحت کے یونٹوں کی نج کاری کی ہے۔ آج یہ پھر وہ عوام کو صحت اور علاج کی فراہمی کے جملے اپنے منشوروں میں لکھ رہی ہیں۔ اس وقت پاکستان کے سرکاری شعبہ صحت پر کل قومی آمدن کا صرف 0.91 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ 2017-18ء میں تمام صوبوں کے کل پانچ ہزار تین سو سات ارب روپے کے بجٹ کا صرف 384 ارب صحت کے لئے مختص کیا گیا تھا۔ اس کا تقریباً آدھا خرچ ہی نہیں ہوا کیونکہ یہ دوسرے شعبوں میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ نواز لیگ نے اپنے 2018ء کے انتخابی منشور میں صحت کے سرکاری بجٹ کو جی ڈی پی کے 0.91فیصد سے 2 فیصد تک بڑھانے کی بات کی ہے جبکہ پی ٹی آئی نے یہ تیر مارا ہے کہ اس عدد کو 2.6 فیصد کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے بجٹ میں نعرہ بازی بہت ہے، کوئی ٹھوس اعداد و شمار نہیں ہیں۔ ایسے جھوٹے وعدے ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں لیکن جو رقوم مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے وہ بھی اس بیماریوں بھرے معاشرے میں انتہائی قلیل ہیں‘ جہاں 90 فیصد آبادی مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے اور 60 فیصد مختلف سطحوں پر غذائی قلت یا عدم استحکام کا شکار ہے۔ یوں ان اعداد و شمار سے حکمران طبقے کے سیاست دانوں کے عوام کی جانب تضحیک آمیز رویے کی بو آتی ہے۔ پاکستان میں جہاں شرح خواندگی گرتی جا رہی ہے وہاں علاج کی عدم فراہمی سے معاشرے کی زندگی مزید بیماری اور بدحالی میں داخل ہو رہی ہے۔ اس وقت ہر 1000 پیدا ہونے والے بچوں میں سے 66 غربت کی وجہ سے پیدائش کے فوراً بعد ہی چل بستے ہیں۔ ہر ہزار میں سے 170 مائیں نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے اپنی زندگی کی بازی اس نظام کی چوکھٹ پر ہار دیتی ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا میں جہاں تھر وغیرہ میں بچوں کی اموات کا بہت شور ہوتا ہے وہاں یہ ذرائع ابلاغ بنیادی صحت اور علاج کی سہولیات پر سرکاری اخراجات پر زیادہ بات کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ صحت اور علاج کے شعبوں میں پاکستان‘ کانگو اور بنگلہ دیش کے بعد دنیا میں سب سے کم سرکاری اخراجات کرنے والا ملک ہے۔
پیپلز پارٹی نے غریب خاندانوں کے علاج کے لئے ‘علاج کارڈ‘ نکالنے کا عندیہ دیا ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے گیارہ نکاتی ایجنڈے میں صحت کارڈ کا اعلان کیا ہے۔ ویسے تحریک انصاف اور ن لیگ کے کارڈ پہلے بھی چل رہے ہیں۔ لیکن یہ کارڈ بذاتِ خود مسئلے کو حل کرنے کی بجائے الجھانے اور چھپانے کی واردات معلوم ہوتے ہیں۔ جب آئین کے آرٹیکل 38 کے تحت مفت اور معیاری علاج ہر شہری کا بنیادی حق ہے تو ایسے کارڈ جاری کرنے کی کوئی منطق نہیں بنتی۔ سرکاری ہسپتال تک پہنچنے والے کسی بھی بیمار انسان کو بغیر کسی کارڈ کے فوری علاج ملنا چاہئے۔ ایک انسانی معاشرے کا تقاضا تو یہی ہے۔ لیکن یہاں سامنے کارڈوں کی تقسیم کا یہ بیہودہ پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور پسِ پردہ سرکاری نظامِِ صحت مزید خستہ حال ہو رہا ہے‘ جس کا سب سے بڑا ثبوت پچھلے دنوں پختونخوا کے بارے جاری ہونے والے اعداد و شمار ہیں‘ جن کے مطابق ان کارڈوں کی مد میں 60 فیصد ادائیگیاں پھر نجی ہسپتالوں کو جا رہی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ آبادی کے کچھ حصے کو کارڈ جاری کر کے نظامِ صحت کی مکمل نجکاری کی واردات ہے۔ اور جنہیں کارڈ ملتے ہیں انہیں بھی پیچیدہ پراسیس، سرخ فیتے اور لمبی قطاروں میں سے گزر کر شاید ہی نجی شعبے کا کچھ علاج میسر آ سکے۔ نجی ہسپتال براہِ راست تو ان کارڈوں کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ سرمایہ داروں نے نجی ہسپتال پیسہ کمانے کے لئے بنائے ہیں، لوگوں کو ارزاں علاج کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے نہیں!
ایک انگریزی اخبار میں حال ہی میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مضمون میں لکھا ہے، ”سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام پارٹیاں ایک مرتبہ پھر تیزی سے پھیلتے ہوئے نجی شعبے کا ذکر کرنے سے اجتناب کر رہی ہیں۔ یہاں تک کہ اس نجی شعبے کو ریگولیٹ کرنے تک کا ذکر بھی ان کے منشوروں میں نہیں ہے‘‘۔ اگر پاکستان کے کلاسیکی حکمران طبقے کا کوئی نمائندہ اس بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کر رہا ہے تو اس سے حکمران طبقے کے سنجیدہ ماہرین یہ باور کروا رہے ہیں کہ سرکاری ترجیحات اس ملک میں صحت مند لیبر فورس کی تشکیل کے لئے بھی درست نہیں ہیں۔ لیکن نجی شعبے کو قائم رہتے ہوئے اس کی ریگولیشن سے چونکہ شرح منافع کو ٹھیس پہنچتی ہے لہٰذا ایسا تو ہرگز نہیں ہو سکتا!
جب سے سرمایہ دارانہ نظام کا بحران گہرا ہوا ہے بہت سے صنعتی اور پیداواری شعبوں میں شرح منافع گرنے سے بڑے بڑے کارپوریٹ مالکان نے بھی صحت اور تعلیم کے شعبوں کا رُخ کر لیا ہے۔ اس میں سامراجی اجارہ داریاں بھی شامل ہیں۔ یہ نجی شعبہ اوپر سے نیچے تک زخموں کے بیوپار سے پیسہ بنا رہا ہے۔ ایک چھوٹے سے دیہات سے لے کر بڑے بڑے میٹروپولیٹن شہروں تک نجی ہسپتالوں کے مختلف معیارات ہیں‘ لیکن انسانی زخموں اور بیماریوں کے اس کاروبار کی نفسیات ایک ہی ہے۔ 2012ء میں ان نجی معالجوں نے 7.63 ارب ڈالر کا منافع کمایا تھا۔ چھ سال بعد اب یہ 13 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ اتنی بڑی دولت بھلا کون چھوڑتا ہے۔ علاج زندگی کی ایسی سلگتی ہوئی ضرورت ہے جس کے لئے انسان سب کچھ بیچنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے۔ اپنے پیاروں کو کوئی تڑپتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ انہی مجبوریوں سے اس نجی علاج مافیا کی تجوریاں بھرتی ہیں۔ عورتوں کے گہنے بک جاتے ہیں اور غریب اپنے گھروندے بیچ کر بھی اپنے عزیزوں کا علاج کرواتے ہیں چاہے چھت سے ہی کیوں نہ محروم ہو جائیں۔ یہ ایک ایسی صنعت ہے جس نے یہاں کے غریبوں کے لئے بیمار ہونا ایک جرم بنا دیا ہے۔ جس معاشرے میں انسانی زخموں اور درد کا بیوپار ہوتا ہو وہ حیوانی معاشرہ کہلاتا ہے۔ اسے انسانی معاشرہ بنانے کے لئے بھی منافع خوری کے نظام کا خاتمہ درکار ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ