کراچی کمپنی اسلام آباد میں جاﺅ تو دکانوں کے آگے ایک ایک اسٹینڈ پر کہیں ریڈی میڈ سوٹ، کہیں جیولری، کہیں جدید ٹاپس۔ یہ منظر دیکھنے کے بعد میں نے ان نوجوانوں سے پوچھا:تم دکاندار کو کتنے پیسے دیتے ہو؟ کسی نے کہا بیس ہزار اور کسی نے پچاس ہزار۔ حیرت سے پوچھا ”کیا اتنا کما لیتے ہو؟“ بولے:ان کو دے کر گھر کی روٹی چل جاتی ہے۔ پھر میں گئی آب پارہ، وہاں تو ایک ٹوکری کی جگہ بھی مل جائے تو لوگ خود کو خوش نصیب سمجھتے ہیں۔ چپل سے لے کر جرابیں، پھل، چشمے اور گرم چادریں فٹ پاتھ پہ رکھے، سب یوں بے آسرا بیچنے والے مطمئن ہیں کہ ان کے پاس سرمایہ نہیں، یوں فٹ پاتھ پہ بیٹھ کر، گھر کا خرچ نکال لیتے ہیں۔ یہ احوال لکھ کر اور ڈاکٹر عارف حسن کا سنجیدہ مضمون پڑھ کر مجھے بھی حیرت ہوئی کہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے چھوٹے کاروبار والوں کے بے توقیر چھجے گرائے جا رہے ہیں۔ بہت محترم ہیں، میرے کیا سب کیلئے ہمارے چیف جسٹس، مگر وہ لوگوں کو بیروزگار کرنے کا حکم نہیں دے سکتے۔ جبکہ کراچی میں کوئی بیس کوئی پچاس برس سے نسل در نسل دال، چاول یا جوتے گانٹھنے یا تنور میں کلچے لگانے کا کام کر رہا ہے۔ کراچی صدر میں موبائل ٹھیک کرنے والوں سے، استری اور بجلی کی چیزیں ٹھیک کرنے والوں کے کھوکھے، وہ کہاں جائیں؟ بمبئی میں جھگیاں گرانے کیلئے جب سرکار نے مہم چلائی تو سمیتا پاٹیل، شبانہ اعظمی اور دیگر لوگ سڑکوں پر آکر مظاہرے کر رہے تھے۔ آخر کو سرکار کو جھگی بستی کہ جو دنیا کی سب سے بڑی جھگی بستی ہے، کو قبول کرنا پڑا۔ اسی مثال کو سامنے رکھ کر تسنیم صدیقی نے ”خدا کی بستی“ کے نام سے چھوٹے گھر بنانے اور اس میں ملکیت خاتون کی رکھنے کی شق لازمی رکھی۔ سندھ حکومت نے بھی دیہات میں عورتوں کے نام سے زمین دینے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
پریشانی کی بات یہ ہے کہ یا تو لوگ خاموش ہیں یا پھر میڈیا کی جدید پالیسی کے تحت سب کچھ دکھانا بھی، قوم کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس لیے آج کل اسکولوں میں لڈی ڈانس، جیپ ریلی، گھوڑوں کا ڈانس اور مرغوں کی لڑائی دکھائی جاتی ہے۔ کبھی کبھی اکا دکا 85فیصد آبادی کے بارے میں خبر بھی ہوتی ہے اور ڈرامے بھی۔ایک طرف حکومت کے دعوے ہیں کہ چھوٹے کاروبار کرنے والوں کیلئے تربیت اور قرضے بلاسود دیئے جائیں گے تو دوسری طرف چھوٹے کاروبار والوں کی ہٹی ناجائز تجاوزات کہہ کر گرائی جا رہی ہیں۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ جب وہ لوگ کام شروع کرتے ہیں تو کارپوریشن والے ہر جگہ اپنا حصّہ لینے پہنچ جاتے ہیں۔ بے چارے نان، چھولے بیچنے والے کو روز پولیس والوں کو مفت کھانا کھلانا پڑتا ہے۔ موٹر سائیکل اور رکشہ والوں کو پولیس کی جیب میں ”کچھ“ ڈال کر آگے جانے کا راستہ ملتا ہے۔ کیوں نہ ہو کہ ابھی تو ساہیوال میں 12سالہ لڑکی اور 13سالہ لڑکے کی شادی محلے والوں نے شکایت کر کے رکوائی، ورنہ نکاح خواں تو اپنا مشاہرہ لے چکے تھے۔
انڈیا میں جب ٹھیلوں اور چھوٹی دکان والوں کو اسی طرح اٹھانے لگے تھے تو دلّی میں مدھو کشور نے شور مچا کر حکومت کو مجبور کیا کہ پہلے ان کیلئے جگہ مخصوص کی جائے جہاں وہ اپنا کاروبار کر سکیں۔ پاکستان میں معلوم نہیں کیوں سیاستدان ایسے اہم موضوع کو چھوڑ کر یوٹرن کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ اکیلا بلاول ہے جو اس اہم موضوع پر بول پڑا ہے۔
مجھے گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان کا سعودیہ، دبئی اور چائنہ کا دورہ، ہتھیلی پہ رکھے انگارے کی طرح نظر آ رہا ہے۔ بھیک مانگتے رہے تو اب ٹرمپ کو بے غیرتی کے ساتھ کہنا پڑا کہ ملٹری اکیڈمی کی بغل میں اسامہ رہتا رہا تو پاکستان کی حکومت کہتی رہی ہمیں معلوم ہی نہیں تھا۔ جتنی مغلظات ٹرمپ کو آتی تھیں، ساری دنیا کے سامنے پاکستان کو سنا دیں۔ اب جواب ہی نہیں تو بولیں کیا؟ ہم تو گزشتہ 30برس سے بھوک بیچ کر بم بنانے کے کام میں‘ وہ بھی امریکہ کے کہنے پر، مصروف ہیں۔ وہی امریکہ جس نے افغانستان میں جنگ میں 900بلین ڈالر جھونک دیئے ہیں۔ گزشتہ 17برس میں امریکہ کے ڈھائی ہزار فوجی مارے گئے اور بے چارے 1لاکھ 47ہزار افغانی بے موت مارے گئے۔ یہاں اپنی بے وقوفیوں کی بات ٹرمپ نہیں کرتا ہے۔ ہمارے ہزاروں لوگ مارے گئے، بے گھر ہوئے اور پھر ہمیں کو بدنام کرو ہو!
ہماری بے اعتدالیوں کی داستان اب تو بے شمار کتابوں میں شائع ہو چکی ہے۔ سب سے سنجیدہ نکات نسیم زہرہ نے اپنی کتاب میں کارگل کے حوالے سے اٹھاتے ہوئے پاکستان کی حماقتوں سے بڑی سنجیدگی اور دل سوزی کے ساتھ پردہ اٹھایا ہے کہ جس میں سیاسی اور فوجی‘ دونوں طرح کی حماقتیں شامل تھیں۔ مشرف تو خیر تھا ہی شطرنج کا وہ بادشاہ جسے پلٹ کر جھپٹنا نہیں آتا تھا۔ تصور خانم کے نغموں میں مبہوت شخص ابھی بھی اپنی شاموں کو رنگین بنائے ہوئے ہے۔ رہا پاکستان کی سلامتی کا مسئلہ۔ خدا کی بڑی قدرت ہو گی اگر ہم بلوچستان میں استقامت سے سیاست کرنا سیکھ لیں اور وہاں پر جو سینکڑوں پوسٹیں خالی پڑی ہیں ان پر بلوچوں ہی کو لگائیں۔ یہ نہ کریں کہ چیف سیکرٹری پنجاب سے لے آئے تو امن ہو جائے گا۔
تجاوزات سے سیاست تک آنا بالکل اس طرح ہے جس طرح ہمارا نوجوان منصور ا?فاق غیر ممالک میں جا کر نہ صرف بہت ذہین ہو گیا ہے بلکہ اب تو اداروں کے سربراہوں کو لگانے کی عقل، حکومتِ وقت کو دے رہا ہے۔ کاش! وہ اس کا کہا بھی مان لیں۔ عقلمند نوجوانوں کے ہنر کو آزمائیں۔ یہ وزیراعظم بھی اب گڑے مردے اکھاڑنا بند کر دیں۔ اب جو حالات سامنے ہیں‘ ان کو ٹھیک کرنے کی طرف توجہ خود بھی دیں اور سارے وزیروں کو بھی کہیں کہ ہمارے سامنے نئے منصوبے لائیں، ہمیں خواب دکھانے شروع کریں۔ غریبوں کو اور غریب مت بنائیں۔ جن لوگوں کو بے روزگار کیا ہے، ان کا مداوا کریں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ