واشنگٹن :امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں اپنی پالیسی میں واضح تبدیلی لاتے ہوئے اپنے فوجیوں کی تعداد میں قابل ذکر کمی کرنے کا حکم دیا ہے۔امریکہ کی جانب سے افغان پالیسی میں واضح تبدیلی کا فیصلہ ایک ایسے وقت کیا گیا ہے کہ جب 17 برس میں پہلی بار اس نے افغان طالبان سے براہ راست بات چیت کی ہے جس کے بارے میں افغان طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس میں امریکی فوج کے انخلا پر بات ہوئی ہے۔ خیال رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب صدر ٹرمپ کی جانب سے شام سے امریکی افواج کی واپسی کے اعلان کے اگلے ہی دن ان کے وزیرِ دفاع جیمز میٹس مستعفی ہو گئے ہیں۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ نے محکمۂ دفاع کو حکم دیا ہے کہ وہ افغانستان سے آئندہ مہینوں میں تقریباً سات ہزار کے قریب فوجیوں کو نکال لیں۔ تاہم برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق افغانستان میں اس وقت موجود 14 ہزار امریکی فوجیوں میں سے پانچ ہزار کو واپس بلایا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے یہ اعلان 17 سالہ افغان جنگ کی پالیسی میں اچانک تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان پہلی بار براہ راست مذاکرات ہو رہے ہیں تاکہ تنازعے کا پرامن حل نکالا جا سکے۔ روئٹرز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس ضمن میں منصوبہ بندی کے لیے زبانی احکامات دے دیے گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ کتنی مدت میں فوجیوں کی تعداد میں کمی کی جائے گی اس حوالے سے ٹائم لائن پر غور کیا جا رہا ہے لیکن یہ عمل ہفتوں یا مہینوں میں مکمل ہو سکتا ہے۔ روئٹرز کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ افغانستان میں باقی بچ جانے والے امریکی فوجی کس طرح سے اس وقت جاری مختلف مشنز کو جاری رکھ پائیں گے جس میں افغان فوج کی تربیت، زمینی کارروائی میں معاونت اور طالبان سمیت دیگر شدت پسند گروہوں کے خلاف فضائی کارروائیاں شامل ہیں۔ امریکی صدر افغانستان میں اپنے فوجیوں کی موجودگی کے زیادہ حامی نہیں رہے تاہم اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے غیر متوقع فیصلہ کرتے ہوئے افغانستان میں تین ہزار اضافی فوجی بھیجے کے اعلان کیا تھا۔ تاہم روئٹرز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ نجی طور پر افغانستان میں امریکی فوجی کی موجودگی پر شکوہ کرتے ہیں اور حال ہی میں انھوں نے اپنے ایک اتحادی سے کہا تھا کہ’ ہم وہاں اتنے برسوں سے ہیں، ہم وہ کر کیا رہے ہیں۔ امریکہ میں 2001 میں نائن الیون کے شدت پسند حملوں کے بعد اس نے اپنی فوج افغانستان میں اتاری تھی تاکہ القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن دلان کے خلاف کارروائیاں کی جا سکیں اور افغانستان کو پرامن ملک بنایا جا سکے تاکہ مستقبل میں یہاں سے مغربی ہداف کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی نہ کی جا سکے۔17 برس تک جاری رہنے والی اس لڑائی میں 24 سو امریکی فوجی مارے جانے کے باوجود امریکہ کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی اور حالیہ برسوں میں افغان طالبان کے زیر قبضہ علاقے میں قابل ذکر تک اضافہ ہوا ہے اور کئی محاذوں پر افغان فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
فیس بک کمینٹ