دنیا بھر میں موسم بدل رہا ہے۔ ابھی کچھ سال پہلے گلگت میں ایک گلیشیر اتنا نیچے سرک آیا کہ پوری آبادی ڈوب گئی اور وہاں جھیل بن گئی۔ جسے عطا آباد جھیل تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اب پھر شہشیر گلیشیر شاہراہ قراقرم کے قریب آبادی کے اس قدر قریب آگیا ہے کہ آبادی وہاں سے کوچ کر رہی ہے۔ اسی طرح اس سال پورے یورپ، امریکہ، انگلینڈ اور کینیڈا میں وہ برف باری ہوئی ہے جو گزشتہ چالیس برس میں نہیں ہوئی۔ اسی طرح پیش گوئی ہے کہ اب کے وہ گرمی پڑے گی جو کہ نہ کبھی پڑی ہے اور نہ سنی۔ ساتھ ہی سائنس دان اور اب تو سیاست دان بھی شور مچا رہے ہیں کہ زمین کے نیچے کا پانی ختم ہو رہا ہے۔ کئی ملک تو ایسے ہیں جیسا کہ جنوبی افریقہ اور اردن کہ وہاں پانی ہے نہیں اور لوگ غسل خانوں میں بھی مختلف طریقے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ہم کیا کر رہے ہیں۔ لڑ رہے ہیں کہ اس صوبے کا پانی، دوسرا پی گیا۔ اسی طرح اسمبلیوں میں لڑائیاں اور پکڑائیاں تو اب تک تھیں، اب تو خیر سے پارٹیوں کے اندر بھی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی روایت برقرار ہے کہ جس سےحکومتی پارٹی بھی مبرا نہیں ہے۔ پانی کا مسئلہ بس اشتہاروں میں پولیو کی طرح اخباروں میں خبروں کی جگہ اور ٹی وی پر پروگراموں کی جگہ نظر آتا ہے۔ ٹی وی پر پانچ چھ اشتہار تو موٹاپا کم کرنے کی بیلٹ خریدنے اور بیڈ کور خریدنے کی ترغیب دینے کے لئے ہیں۔ مجھ جیسے کم ٹی وی دیکھنے والوں کو ان سے کیا فائدہ، چینل والوں کو فائدہ ہے تو وہ بتاتے ہیں بلکہ وہ تو اپنی مرضی سے جہاں سے زیادہ پیسے ملیں چینل کو آگے پیچھے کرنے لگتے ہیں۔
موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہمیں آبادی میں اضافے کے سبب نئے شہر آباد کرنے کی بھی توفیق یعنی منصوبہ بندی کرنا چاہئے۔ ہم نے کیا کیا، شہروں کے نام بدل دیئے، نواب شاہ کا نام بے نظیر آباد رکھ دیا۔ بھئی نواب شاہ تاریخی شہر ہے۔ اس کو برباد مت کرو۔ نیا شہر بناؤجیسا کہ پاکستان میں اسلام آباد، جیسے کہ ہندوستان میں چندی گڑھ جیسا کہ لکھنؤ میں گومتی کے کنارے دوسرا شہر۔ ہم چک شہزاد کو اور بارہ کہو کو بھی اسلام آبادحتیٰ کہ بنی گالا کو بھی اسلام آباد کہتے ہیں۔ یہ تمام آبادیاں بذات خود اسکول، کالج شادی ہال اور اسپتالوں سے مزین ہیں۔ ان کو علیحدہ شہروں کا نام دیا جائے۔ ورنہ پھر لوگ مرکزیت کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ آپ سیالکوٹ جائیں۔ وہ اتنا پھیل گیا ہے کہ نزدیکی تحصیلوں تک اس کی حدیں موجود ہیں۔ یہی حال فیصل آباد، گوجرانوالہ، ملتان اور حیدرآباد کا ہے۔ جامشورو ایک الگ شہر ہے۔ ہم ان تمام شہروں سے متعلقہ نئی آبادیوں کو الگ وجود دیں گے تو وہاں لیڈر شپ بھی پیدا ہو گی، انہی علاقوں میں نئی صنعتوں کو آسانیاں فراہم کریں، جیسا کہ واہ اور حسن ابدال اب پورے شہر ہیں۔ منصوبہ بندی سے کام کریں تو کم از کم 20نئی شہری آبادیاں، نئے ناموں سے وجود میں آسکتی ہیں۔ یہاں بھی مظفرآباد کی طرح کام کیا جائے، زلزلے کے بعد مظفرآباد میں سیکریٹریٹ اور یونیورسٹی، ترکی کی حکومت نے بنائی، اسی طرح دیگر اداروں اور حکومتوں نے مدد کی۔ اب بھی ملائشیا، ترکی، چین، سعودیہ اور ایران کو کہا جائے نئے شہر اپنے ہی نام سے بنا کر دیں۔ یہ بھی کہا جائے کہ چھوٹے خاندان والوں کو یہ گھر ملیں گے۔ خدا نہ کرے کوئی خاندان ایسے چھوٹا ہو جائے جیسا کہ کوئٹہ فیملی کے پانچ بچے، بازاری بریانی کھا کر سو کر ہی نہ اٹھے۔ خدا کے لئے گھر کی دال روٹی بہتر ہے۔ بہ نسبت بند کباب جیسی چیزوں سے، جو ٹماٹو ساس ڈالتے ہیں وہ کیسے بنتی ہیں، آپ ٹی وی کے پروگراموں میں ان کی اصلیت دیکھ چکے ہوں گے۔ گھر کی چٹنی کم از کم زندگی کا دکھ نہیں دیتی۔ روز ہزاروں لیٹر دودھ، ناقص ہونے کے باعث ضائع کیا جاتا ہے۔ کیا یہ کافی ہے؟ ان لوگوں کو سخت سزائیں ملنی چاہئیں۔ سیاسی طور پر تو سب دہشت گرد تنظیموں جنہیں مذہب کے نام پر فروغ دیا گیا،کو آج سے 30برس پہلے ہی ختم کر دینا چاہئے تھا۔ اب جانے کب ان کے بارے میں عملی قدم اٹھایا جائے گا۔ یہ وہ بات ہے جسے ساری دنیا جانتی ہے کہ جانے نجانے گل ہی نجانے، باغ تو سارا جانے ہے۔ طالبان کے حوالے سے ہم گزشتہ تیس برس سے خود فریبی میں مبتلا ہیں بلکہ ماضی میں تو ہم نے ان کی حکومت کو تسلیم بھی کر لیا تھا۔ اس کے جو نتائج نکلے، وہ ہم سب کو یاد ہیں۔ آج بھی امریکی اور طالبان مذاکرات کے درمیان کبھی ہم شریک ہو جاتے ہیں۔ کبھی امریکی ہمیں شامل کئے بغیر قطر میں مذاکرات کرتے ہیں۔ یہ باتیں میں انتباہ کے طور پر کر رہی ہوں کہ دہشت گرد تنظیموں پر بظاہر پابندی برقرار ہے، مگر وہ لوگ ہر جگہ اپنی سرگرمیاں اندر خانے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ہروقت ہمیں بلیک لسٹ کرنے کے خطرے کی گھنٹی مستقل بجے جا رہی ہے۔ اس لئے ہمیں کمزور سمجھ کر،ہمارے پڑوسی خود حملہ کر کے، ذمہ دار پاکستان کو قرار دینے لگتے ہیں۔ ہم جیسے لوگوں جنہوں نے چار جنگیں دیکھیں اور بوڑھے ہوئے، کو ایران، عراق جنگ، امریکہ کے عراق اور اس کے بعد شام اور یمن پر حملوں کے نتائج معلوم ہیں۔ دونوں ملکوں کو اپنے نصاب میں امن کی ضرورت پرزور دینا اور سنجیدہ اور ذہین لوگوں کو سامنے لانا ہو گا۔ مختلف قسم کے اسلحے کے حوالے دیئے جاتے ہیں، ہم 45فیصد نوجوان نسل کو کیا سکھانا چاہتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں جدہ سے ممبئی تک اور اسلام آباد میں بے موسمی بارشیں ہوئی ہیں، غربت بڑھی ہے۔ جہالت میں ہندوستان ہم سے آگے ہے۔ ہم نوجوانوں کے روشن مستقبل کے لئے کیا کر رہے ہیں؟
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ