مجھ جیسا کوئی بابا، حکیم کے پاس گیا، پیٹ کے درد کی دوائی مانگی۔ پوچھا کیا کھایا تھا؟ کہا کھائی تو روٹی تھی مگر وہ ذرا جلی ہوئی تھی۔ حکیم نے اس کو آنکھوں میں ڈالنے کے لئے قطرے دیئے۔ بابا بولا ’’میرے پیٹ میں درد ہے اور آپ مجھے آنکھوں کی دوائی دے رہے ہیں‘‘۔ حکیم صاحب نے کہا آنکھیں ٹھیک ہوتیں تو تم جلی ہوئی روٹی نہ کھاتے۔ بس اب ہماری اسمبلیوں کے ممبران کو بھی آنکھوں میں ڈالنے کی دوائی اس لئے دی جائے کہ وہ جلی کٹی سناتے ہیں، ان کو ایسی دوائی دی جائے کہ وہ آنکھیں کھول کر دیکھ سکیں۔ اس وقت پاکستان میں دوائی سے سبزی تک کی قیمتیں کیا ہیں؟ نالائق ڈاکٹروں کے ہاتھوں تھرپارکر اور سندھ میں ایڈز کے مریض ایسے بڑھ رہے ہیں جیسے ہیضے کے مریض۔ سیاستدانوں کی گفتار اب بچوں تک پہنچ گئی ہے۔ ایک دوسرے کو چھیڑنے کیلئے سارے لڑکے ’’صاحبہ صاحبہ‘‘ کے نعرے مارتے پھر رہے ہیں۔
اس قدر ڈھٹائی سے وزراء اعلان کر رہے ہیں کہ ابھی چند اور مہینے سختی کے ہیں، پھر پاکستان جنت بن جائے گا۔ ہمارے معصوم بلاول صاحب سے تھرپارکر میں پانی کے بارے میں سوال کرو تو وہ کہتے ہیں ’’ہم نے تھرپارکر میں 700فلٹر پمپ لگا دیئے ہیں‘‘۔ عزیزم سے کوئی پوچھے کہ زمین کے نیچے پانی ہوگا تو یہ فلٹر کام کریں گے ورنہ ان سے ہوا ہی نکلتی رہے گی۔
مہینے کے تیس دن ہوتے ہیں، بتیس دفعہ اعلان ہوتا ہے کہ پچاس لاکھ گھر بنائے جائیں گے۔ وہی محاورہ ’’سوت نہ کپاس، کولہو سے لٹھم لٹھا‘‘۔ ابھی زمین کا پتا نہیں۔ زمین ملے تو سروے ہو کہ نیچے کتنا پانی میسر ہے، سیوریج کا سسٹم ہے کہ نہیں۔ یہ باتیں آرکیٹکٹ اور دانشور سوچتے رہیں۔ وہ جیسے ایک زمانے میں ٹانگوں کے اوپر بھونپو لگا کر فلموں کے لئے اعلان کیا جاتا تھا کہ عورتوں کے لئے خصوصی فلم۔ بالکل اسی انداز سے پہلے ڈیم بنانے کے لئے اعلان ہوتا تھا۔ اب پچاس لاکھ گھروں کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ پناہ گاہیں بنانے اور غریبوں کو پیسے دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔ لڑکیاں ہوں کہ لڑکے، ان کو ہنر سکھانے کے ساتھ وظیفہ دینے اور ہنر سیکھنے کے بعد کس فیکٹری یا کسی کارخانے میں نوکری ملے گی۔ یہ تفصیلات باقاعدہ منصوبہ بندی سے نہیں بتائی جائیں گی تو وہی بے اعتمادی لوگوں میں رہے گی۔
ایوب خان آئے وہ اپنا لوکل گورنمنٹ سسٹم لائے، مشرف آئے وہ اپنا سسٹم لائے اور اب نیا مقامی کونسل کا نظام لانے کا کہا جا رہا ہے۔ ہم بوڑھے طوطے اس تبدیلی کا مطلب کیا سمجھیں جبکہ کراچی اور کے پی میں لوکل گورنمنٹ کے الیکشن بھی ہو گئے یا ہو رہے ہیں۔ سرکاری پارٹی کے ممبران کے لئے گرانٹس بھی دی جا رہی ہیں۔ سرکاری محکموں کو بجٹ بناتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ بس تنخواہیں اور کرائے کی مد میں بجٹ ملے گا۔ ترقیاتی فنڈز کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ اچھا تو پھر این جی اوز کے ذریعے ملکوں ملکوں بھیک مانگنے دو۔ اس کی بھی اجازت نہیں ہے؟
سڑک پر نکل کر تو دیکھو، سارے بابے جو چھابے اٹھائے بھیک مانگ رہے ہیں، وہ سارے مزدور جو اپنی اپنی کدال لئے آج کی روزی کے لئے بیٹھے ہیں۔ ان کو محنت مزدوری کے مواقع میسر کرو۔ خیرات دینے سے، وہ ہاتھ پھیلانے کے اس طرح عادی ہو جائیں گے جیسے بے شمار عورتیں، بچے کو افیم کھلا کر گود میں لئے بھیک مانگ رہی ہوتی ہیں۔ پوچھو کام کرو گی تو جواب دیئے بنا، دوسری گاڑی کی جانب لپک کر چلی جاتی ہیں اور وہ بچے جو آپ سے پیسے لے کر لالی پاپ کھاتے ہوئے ہاتھ پھیلاتے ہیں، ان کا کیا یہی مستقبل ہے؟ میرے اتنے سارے جوان بچے جو بولتے بھی خوب ہیں، ان کے ذہن میں ان سوالوں کا جواب نہیں ہے۔
جب سارے مسئلوں پر ہنگامہ کم ہو جاتا ہے تو شور بہت تیز شور، لڑکی کی شادی کی عمر پہ ایسا پڑتا ہے کہ سارے چینل سارے اخبار، سارے مولوی، اس کو ملک اور مذہب کی سالمیت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ ہمارے قائداعظم نے سارے مسلمانوں کی مخالفت کے باوجود لڑکی کی شادی کی عمر کا تصفیہ ختم کروایا تھا۔ وہ سال تھا 1929۔ اب سو سال بعد، سائنس اور شعوری بلندی کے باوجود لڑکی کی شادی کی عمر 18 سال کرنے پر اتنے برہم ہیں کہ میں نوکری چھوڑ دوں گا۔ وہاں نہیں بولتے جہاں نو سال کی لڑکی کا 70سال کے بوڑھے کے ساتھ، نکاح خواں باقاعدہ نکاح پڑھا رہا ہوتا ہے۔سب لوگ تھرپارکر میں عورتوں اور بچوں کے مرنے پر نوحہ پڑھتے ہیں۔ ان نتائج کی وجوہات پر غور نہیں کرتے ہیں کہ جب گیارہ سال کی لڑکی بلوغت کے فوراً بعد بیاہی جائے گی،12 سال کی عمر میں اپنی طرح کے مردار بچے کو جنم دے گی، تو وہ دونوں مریں گے نہیں تو اور کیا ہوگا۔ لیکن آپ نے پڑھا کہ جتنی تعداد میں جوان لڑکیاں بچوں کو جنم دیتے ہوئے مر جاتی ہیں، کبھی بڑی عمر کی عورتیں بھی اس طرح مرتی ہیں؟ تھرپارکر میں بھی اگر لڑکی کی شادی کی عمر18 سال اور لڑکے کی20 سال کر دی جائے پھر دیکھئے کتنا فرق پڑے گا۔ اب تو مصری علماء نے بھی لڑکی کی شادی کی عمر 18سال کرنے کی تجویز کو پاس کر دیا ہے۔ ابھی تو چند روز بعد عید کے چاند کے جھگڑے ہوں گے۔ خدا کے لئے وہ ایک نیک کام کہ سب تعلیمی اداروں اور مدرسوں کا نصاب یکساں ہوگا، دس پڑھے لکھے لوگوں کو دس دن کے لئے ایک جگہ بٹھا دیں، نصاب تیار ہو جائے گا۔ مگر سب کاموں کے لئے ٹیم چاہئے ہوتی ہے۔ ترین صاحب ہر مسئلے کا حل نہیں ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ