اگرچہ ریلوے منافع میں نہیں جا رہا، لیکن اس کے پلیٹ فارم بہت ’’منافع بخش‘‘ ہیں۔ آپ کسی بھی وقت وہاں جائیں آپ کو کھوے سے کھوا چھلتا نظر آئے گا۔ ایک ہجومِ عاشقاں ہے جو اردگرد کے علاقوں سے وہاں پہنچتا ہے۔ یہ سب لوگ کسی ٹرین کو پکڑنے کے لئے وہاں جمع نہیں ہوتے اور نہ ہی کسی مہمان کو وصول کرنے وہاں پہنچے ہوتے ہیں بلکہ یہ روزہ خور ہیں جن کا کہنا ہے کہ زندگی ایک سفر ہے اور یوں ہم سب مسافر ہیں اور مسافروں کے لئے روزہ معاف ہے۔ ریلوے اسٹیشن پر انواع و اقسام کی اشیائے خور و نوش مسافروں کے لئے دستیاب ہوتی ہیں اور یہ مسافر ان کے ساتھ پورا پورا انصاف کرتے نظر آتے ہیں۔ صرف ریلوے پلیٹ فارم ہی نہیں ان دنوں اسپتالوں میں بھی بہت رونق نظر آتی ہے، اس رونق کے ذمہ دار نہ مریض ہیں اور نہ ان کے تیماردار بلکہ اس رعایت سے فائدہ اٹھانے والے وہ روزہ خور ہیں جو اسلام نے مریضوں کے لئے مخصوص کی ہے کہ وہ روزہ چھوڑ سکتے ہیں، چنانچہ اسپتالوں کی کینٹین ان مریضوں سے لبالب بھری ہوتی ہیں۔ اسلام میں غیر مسلموں کے لئے بھی روزے کی پابندی نہیں ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے بھی کچھ واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایک ناکے پر پولیس نے ایک موٹر سائیکل سوار کو روکا، اس سے کاغذات طلب کئے مگر اس کے منہ میں پان کی پیک بھری ہوئی تھی۔ اس نے جواب دیا تو پولیس والا سمجھ گیا کہ اس کے منہ میں پان کی پیک ہے، اس نے اس روزہ خور کی طرف غصے سے دیکھا اور کہا:اے بے غیرت انسان تو نے روزہ نہیں رکھا، اس پر اس نے پان کی پیک کی پچکاری سڑک پر ماری اور پوری قرأت سے کلمہ پڑھتے ہوئے کہا میں کرسچن ہوں، یہ سن کر سنتری کی ہنسی چھوٹ گئی اور پھر اس نے ماہِ مقدس کے احترام میں بہت کم پیسے لے کر اسے چھوڑ دیا۔
تاہم تین متذکرہ مقامات کے علاوہ شہر کے وہ تمام ریستوران جو غرباء کے لئے ہوتے ہیں، مکمل طور پر بند ہیں چنانچہ اگر کوئی سچ مچ کا مسافر کوئی سچ مچ کا مریض اور کوئی سچ مچ کا غیر مسلم سارا شہر بھی چھان مارے اسے کھانے پینے کے لئے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ البتہ اشرافیہ کے کلبوں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ہر طرح کے کھانے اور ہر طرح کے پینے کی سہولتیں کسی زمانے میں پوری طرح موجود ہوتی تھیں۔ کچھ عرصہ کے لئے ان کی انتظامیہ نے ایک رسمی سی کارروائی ایک فارم کی صورت میں رکھی ہوئی تھی جس میں تین خانے بنے ہوئے تھے، پسنجر، سک اور نان مسلم۔ حاجت مند ان میں سے کسی ایک کو ٹک کرکے نیچے اپنے سائن کرتا تھا اور مطلوبہ خوراک اسے فراہم کر دی جاتی تھی۔ ایک حاجت مند اشرافیہ کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں داخل ہوا، ویٹر نے اسکے سامنے وہ فارم لا کر رکھ دیا۔ اس نے تینوں شقوں کے آگے کاٹا لگایا اور ایک چوتھی شق ’’ہنگری‘‘ کے نام سے بنائی اور اسے ٹک کر کے ویٹر کو دے دی اور ویٹر کھانا لے آیا۔
لیکن کچھ ’’نیک دل‘‘ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان غریبوں کی دست گیری بڑے سائنسی انداز میں کرتے ہیں جنہیں کہیں سے کھانے کو کچھ نہیں ملتا، مثلاً وہ سہ پہر کو تین بجے پکوڑے اور سموسے تلنے لگتے ہیں اور یہ ’’نیک دل‘‘ لوگ مسافروں ’’غیر مسلموں‘‘ اور بیماروں کو افطاری تک انتظار نہیں کراتے۔ چار بجے قلچے بھی لگنے لگتے ہیں اور یہ نیک دل تاجر مسافروں، غیر مسلموں اور بیماروں کو افطاری سے گھنٹوں پہلے مال کی سپلائی شروع کر دیتے ہیں اور یا پھر بیکریاں ہیں، جہاں سے آپ کو دن کے کسی بھی وقت میں سب کچھ تیار مل سکتا ہے لیکن ان کی شرط یہ ہے کہ آپ یہ اشیائے خور و نوش دکان سے باہر جاکر استعمال میں لائیں کہ وہ آپ کے اس گناہ میں شریک نہیں ہونا چاہتے لیکن بیکری سے ملنے والی خوراک غریب آدمی کی دسترس میں نہیں، لے دے کے تین چار بجے وہ پکوڑے کھا سکتا ہے اور اس کے لئے بھی اسے کوئی خفیہ پناہ گاہ تلاش کرنا ہوگی چنانچہ اگر کوئی غریب روزہ خور ہے یا کسی مجبوری کی وجہ وہ روزہ نہیں رکھ سکتا تو اسے اولین فرصت میں امیر بننے کی کوشش کرنا چاہئے کہ امیروں کے لئے راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔
خفیہ پناہ گاہ سے مجھے یاد آیا کہ میرا ایک دوست جو شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض تھا، اسے پراسٹریٹ کا بھی پرابلم تھا اور یوں ڈاکٹروں نے اسے سختی سے روزہ رکھنے سے منع کیا ہوا تھا۔ ایک روز گھر سے باہر تھا، پراسٹریٹ کے پرابلم کی وجہ سے اسے ڈیڑھ دو لیٹر پانی بھی پینا تھا اور شوگر LOWہونے کی وجہ سے اسے کچھ کھانے کی بھی ضرورت تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے کیونکہ سارے شہر میں کھانے پینے کی دکانیں بند تھیں کہ اچانک اس کی نظر ایک مشکوک سے شخص پر پڑی جو تھوڑی تھوڑی دیربعد اپنی دو انگلیاں زبان کے نیچے رکھ کر سیٹی بجاتا تھا اور سیٹی پر دو تین لوگ ادھر ادھر سے جمع ہو جاتے تھے اور پھر اس کے پیچھے چلنے لگتے تھے۔ اس مشکوک سے شخص نے میرے دوست کی طرف دیکھا اور پھر آنکھ مار کر اشارے سے اسے پیچھے آنے کے لئے کہا۔ دوست نے تجسس کی وجہ سے اس کے حکم کی تعمیل کی، تھوڑی دیر بعد یہ پانچ سات افراد ایک گلی میں تھے۔ وہ مشکوک سا شخص ایک مکان میں داخل ہوا اور انہیں بھی اپنے پیچھے آنے کی ہدایت کی۔ اندر اس کی بیوی توے پر روٹی پکا اور شامی کباب تل رہی تھی۔ ان سب حضرات نے اس خفیہ پناہ گاہ میں ڈٹ کر کھانا کھایا اور بل ادا کرکے چوروں کی طرح ایک ایک کرکے، ادھر ادھر دیکھتے ہوئے باہر آگئے۔ یہ خفیہ پناہ گاہیں یا عافیت گاہیں آج بھی شہروں میں موجود ہیں لیکن الحمدللہ مجھے کبھی وہاں پناہ لینے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ میں کوئی غریب غرباء میں سے نہیں ہوں، اسلام غریبوں پر نافذ کیا جاتا ہے، ہم جیسوں پر نہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ