ویلنٹائین ڈے تھا اور میں اپنی ویلنٹائین اپنی جان سے پیاری امی جان کے لیے چند سوٹ لئے آبپارہ کےمعروف درزی کو ڈیزائن سمجھا رہی تھی۔امی جان نے دو ہفتہ بعد پہلے زیارت اور پھر عمرہ کے لیے روانہ ہونا تھا۔کچھ خواتین کو وہ اپنے خرچ پہ ساتھ بھی لے جا رہی تھیں۔
امی جان شہر کے معروف عالم حافظ سلطان محمود کی صاحبزادی تھیں جو شہر کی تین مساجد میں درس دیتے تھے اور امی جان کے بچپن میں ہی اپنے ربّ کی طرف لوٹ گئے۔ یتیمی اور نا مساعد حالات نے انہیں حساسں بنا دیا تھا۔فرسودہ نظام معاشرتی ناہمواری، ظلم، نا انصافی اور غیر جمہوری رویوں کے خلاف آواز اٹھانے کیلیے انھوں نے قلم کا استعمال کیا۔ ان کی تحریریں مساوات اور دوسرے اخبارات میں چھپنے لگیں۔جمال پبلشر ان کی بچوں کے لئے لکھی گئی کہانیاں چھاپنے لگا۔ وہ سمجھتی تھیں کہ بچوں کی بنیادی تربیت ہی ان کو معاشرہ کا کامیاب فرد بنا سکتی ہے۔
انہیں عام زندگی میں بھی جمہوریت پسند تھی۔ ارد گرد کے لوگ اپنے معاملات اور زندگی کے فیصلوں میں ان سے مشورہ لینے آتے۔وہ بھٹو شہید کے ویژن سے عشق کرتی تھیں۔شہید کی پھانسی کے موقع پر مساوات میں چھپنے والی انکی غزل کا مطلع ہے
بہتی ہوئی آنکھوں میں محبت کا خدا ہے
اک شخص جو کل رات کو سولی پہ چڑھا ہے
افسوس…. ان کی یہ تخلیقی صلاحیت بھی آمرانہ رویوں کی بھینٹ چڑھ گئی اور ان کی تحریریں گھر کے تندور میں نذر آتش کر دی گئیں۔
انہیں اپنوں سے ہی اپنے قانونی حقوق کے حصول کے لیے اک طویل جنگ لڑنا پڑی۔
ان کی جرات اور حوصلہ مندانہ گود میں پرورش میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔
ماں بہت شفیق ،سخی اور نیک تھیں۔انہوں نےڈیڑھ سو سے زیادہ بچوں کو قرآن پاک پڑھایا۔ وہ دل میں عشق اہلبیت رکھتی تھیں۔ خیرات،نیاز اور مجالس کا باقاعدہ اہتمام کرتی تھیں۔وہ خودبھی ذاکرہ تھیں اور ریاض حسین موچھ والے کے پرسوز انداز میں حسینی دوہڑے پڑھا کرتی تھیں.۔
انہوں نے کئی حج اور عمرے کیے۔آج 14 فروری کے ایسے ہی دن جب میں درزی کو زیارات اور عمرے کیلیے ان کے کپڑوں کے بارے میں سمجھا رہی تھی تو اس وقت بھی ان کا کربلا اور عمرے کا ویزہ لگ چکا تھا۔مگر وہ ویزے اور ٹکٹ کے بغیرہی روانہ ہو گئیں۔
فیس بک کمینٹ