سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال دو ہزار انیس میں کوئلے کی کانوں میں حادثات کے سبب ایک سو چھیاسی کان کن جاں بحق ہوئے ان میں سے چھیانوے کا تعلق خیبر پختون خوا کے ضلع شانگلہ سے تھا۔ اس ضلع میں کان کنی برائے نام ہوتی ہے لیکن غربت کا یہ عالم ہے کہ اس حسین علاقے کے دیہات میں رہنے والے پندرہ سے تیس برس کی عمر کے جوانوں کی اکثریت کان مزدوری کے لیے اپنے صوبے کے علاوہ سندھ اور بلوچستان تک جاتی ہے۔
جب بھی کوئی لڑکا زیرِ زمین کان میں کام کرنے کے لیے رخصت ہوتا ہے تو اس کا خاندان یہ جان کر رخصت کرتا ہے کہ شائد اب یہ اپنے پیروں پر چل کے واپس نہ آئے۔جس مہینے پیسے آنے بند ہو جاتے ہیں اہلِ خانہ سمجھ جاتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ برا ہو گیا ہے۔اوسطاً دو سے پانچ تابوت ہر ماہ ملک کے مختلف علاقوں سے شانگلہ پہنچتے ہیں اور ان کی جگہ پر کرنے کے لیے مزید بے روزگار تیار رہتے ہیں۔
گزشتہ برس موقر اخبار ڈان میں شانگلہ کے کان کنوں سے متعلق ایک خصوصی رپورٹ شایع ہوئی۔ رپورٹر نے ایک بنیادی سوال ہر کان کن سے پوچھا کہ آپ اس خطرناک ترین پیشے کے بجائے کوئی اور کام کرنے کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے۔بیشتر کا جواب تھا کہ کام کے لیے ہاتھ پاؤں مار کر اور ہر جگہ کے چکر لگا کر جب ہم تھک جاتے ہیں تو سو میں سے چھیانوے نوجوان جنھیں نوکری نہیں ملتی یہی سوچ کر اس پیشے میں چھلانگ لگا دیتے ہیں کہ مسلسل خالی بیٹھنے سے بہتر ہے کہ یہی کیا جائے۔جیتے جی اگر کچھ نہ بھی ملا تو مرنے کے نتیجے میں گھر والوں کو ڈیڑھ دو لاکھ روپے معاوضہ تو مل ہی جائے گا۔
مگر یہ معاوضہ بھی اکثر اتنی دیر سے ملتا ہے کہ گھر والے زندگی ڈھونے کے لیے قرض پر قرض اٹھاتے چلے جاتے ہیں اور جو معاوضہ آتا ہے وہ ان قرضوں کی بیباقی میں کھپ جاتا ہے۔تب تک گھر سے ایک اور لڑکا زندگی اور موت کے اس سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہے مگر غربت ہے کہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتی۔
ترقی یافتہ ممالک میں کان کن کو پیشے کی خطرناکی کے سب عام کارکنوں سے زیادہ معاوضہ ملتا ہے اور وہاں کانکنی میں جدید آلات کے استعمال اور حفاظتی انتظامات کو سب سے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔مگر پاکستان میں جدید آلات تو خیر کیا استعمال ہوں گے کان کنوں کی ذاتی حفاظت کے آلات بھی پورے نہیں ہوتے یا پھر انتہائی ناقص ہوتے ہیں۔لگ بھگ سو فیصد ناخواندگی کے سبب انھیں اپنے حقوق اور قوانین کے بارے میں بھی بہت کم معلوم ہے۔ان حالات میں آپ کو کان کنی کے شعبے میں بے خانماں مگر سخت جان پشتون ، افغان اور افغان ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ نظر آتی ہے۔مثلاً بلوچستان کی کانوں میں مقامی کارکنوں کی تعداد بمشکل بیس فیصد ہو گی۔اسی فیصد کا تعلق بیرون سے ہے۔
ان کان کنوں کی ملازمت مستقل نہیں ہوتی۔ انھیں معاوضہ بھی پرخطر حالات میں گھنٹوں کے اعتبار سے نہیں بلکہ وزن کے اعتبار سے ادا کیا جاتا ہے۔مثلاً کوئلے کی کان میں سے ایک ٹن مال نکالنے کا معاوضہ سات سو سے بارہ سو روپے تک ہے۔کان کن کی اوسط ماہانہ آمدنی بیس سے چالیس ہزار روپے بن جاتی ہے۔ ان کے رہن سہن اور روزمرہ زندگی کے حالات بھی انھی کی طرح دگرگوں ہیں۔اکثر کارکن کان سے ذرا فاصلے پر بنے کمروں یا جھونپڑیوں میں مشترکہ طور پر رہتے ہیں۔یعنی خاندانی زندگی کے تصور سے کوسوں دور۔وہ مشترکہ طور پر کھانا تیار کرتے ہیں۔نہانے دھونے کے لیے ایک یا دو نل ہوتے ہیں۔وقت گذارنے کے لیے چھوٹا موٹا نشہ یا کسی کی آواز اچھی ہوئی تو تھوڑا بہت گا بجا لیا یا گپ شپ کر لی۔ سو گئے اور جاگنے کے بعد پھر سیکڑوں فٹ گہری قبر میں اتر گئے۔
حالانکہ کان کنی کی صنعت میں آئے دن ہونے والے جان لیوا حادثات کے سبب مائنز ایکٹ مجریہ انیس سو تئیس کے تحت مناسب طبی سہولتوں کی ذمے داری کان مالکان اور متعلقہ سرکاری محکموں پر عائد ہوتی ہے۔مگر کان کنوں کی اوسط عمر دیگر پاکستانیوں کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔اگر وہ زندہ بھی رہیں تو کان کنی کے دوران اٹھنے والی دھول ، ذرات ، مضرِ صحت گیسوں کے مرغولے پھیپھڑوں کا کام تمام کر دیتے ہیں۔بلیک لنگز، تپِ دق، جلدی امراض، بہرہ پن اور شدید اعصابی تناؤ سے اگر کوئی کان کن بچ نکلے تو اسے زندہ معجزہ کہا جاتا ہے۔
مجاز محکمے کانوں میں قوانین کی پاسداری کے لیے اچانک معائنے کا اختیار رکھتے ہیں وہ قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے عائد کرنے اور کانکنی کا لائسنس منسوخ کرنے کے بھی مختار ہیں۔مگر کانوں کے ٹھیکے چونکہ طاقت یا سیاسی تعلقات کی بنیاد پر ملتے ہیں لہٰذا صحت و سلامتی اور معاوضے سے متعلق قوانین پر عمل درآمد نہیں ہو پاتا۔ ویسے بھی اگر معائنہ کاروں کی جیب برابر گرم رہے تو کاہے کو اپنی اختیاراتی مٹھی کھولیں۔ کہنے کو کان کنی کی صنعت بھی سوشل سیکیورٹی کے دائرے میں آتی ہے۔مگر اس کا کھوکھلا پن تب ظاہر ہوتا ہے جب مرنے والے کان کنوں کے وارث چند دن چکر لگانے کے بعد تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں یا زخمی کارکن اپنے زخم باقی زندگی خود ہی چاٹتے رہ جاتے ہیں۔مرے پے سوواں درہ یہ کہ محکمہ کان کنی کے پاس مرنے یا زخمی ہونے والوں کا پورا ریکارڈ بھی نہیں ہوتا۔ یہ تک معلوم نہیں کہ کتنے کان کن رجسٹرڈ ہیں یا نہیں۔ کان کنی ایکٹ مجریہ انیس سو تئیس کے تحت چیف انسپکٹر آف مائنز تمام ریکارڈ کا کسٹوڈین ہوتا ہے اور یہ اس کی صوابدید ہے کہ وہ اس ریکارڈ کی تفصیلات ظاہر کرے یا بالکل نہ کرے۔یعنی وہ اپنی سلطنت کا خدا ہے۔ ریاست کو ان کان کنوں کی جان کس قدر عزیز ہے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ پاکستان نے آج تک بین الاقوامی ادارہِ محنت ( آئی ایل او) کے مائنرز ہیلتھ اینڈ سیفٹی کنونشن مجریہ انیس سو پچانوے اور دو ہزار چھ کی مائنرز گائیڈ لائنز کی توثیق تک نہیں کی۔انگریزی دور سے لاگو سو برس پرانے مائنرز ایکٹ انیس سو تئیس کو جدید بنانے کے لیے انگلی تک نہیں ہلائی۔ البتہ خیبر پختون خوا مائنرز ایکٹ دو ہزار انیس یقیناً ایک اہم کاغذی پیش رفت کہی جا سکتی ہے۔اس ایکٹ کے تحت کان کن کی کم سے کم قانونی عمر اٹھارہ برس ہونی چاہیے۔ہر کان پر لازمی طبی سہولتیں ہونی چاہئیں۔ ہر کان کن کا سال میں کم ازکم ایک بار طبی معائنہ لازمی ہے۔مگر مشکل یہ ہے کہ اس ایکٹ پر عمل کیسے ہو۔ متعلقہ محکمے کے ریکارڈ کے مطابق خیبر پختون خوا کی کانوں میں لگ بھگ دو ہزار کارکن کام کر رہے ہیں اور قوانین کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے محکمے کے پاس صرف چودہ تربیت یافتہ معائنہ کار ہیں اور کان میں زہریلی گیس کی موجودی جانچنے کے آلات کی تعداد پانچ ہے۔لگ بھگ ساٹھ فیصد کان کن رجسٹرڈ ہی نہیں۔
ان حالات میں مچھ میں جن گیارہ کان کنوں کے گلے کٹے۔اگر یہ بہیمانہ واردات نہ بھی ہوتی تو غالب امکان ہے کہ وہ کسی نہ کسی حادثے کا لقمہ بن جاتے۔ کہنے کو پاکستان کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے چھٹا عالمی ملک ہے۔مگر کان کنوں کے تحفظ کی فہرست میں شاید ساٹھویں نمبر پر بھی نہ ہو۔شہروں سے دور پہاڑوں اور لق و دق میدانوں کے سناٹے میں زیرِ زمین کام کرنے والی اس مخلوق کی چیخ بھی کسے سنائی دے گی؟
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )