زندگی ایک بار ملتی ہے اور ہم اسے بسر کرنے میں قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتے ہیں ،مگر یہ بھی عجیب بات ہے کہ بعض اوقات سنبھل جانے کے باوجود بھی سیکھتے کچھ نہیں ،یوں زندگی بھر ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھاتے چلے جاتے ہیں ۔بڑے کہتے ہیں عقل مند وہ ہوتا ہے جودوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھائے ۔جبکہ ہم تجربات پر تجربات کرتے چلے جاتےہیں ۔اس طرح ناکامیوں اور نامرادیوں سے دامن پُر کر لیتے ہیں ۔
آج کے اظہاریئے میں مختلف تہذیبوں کے بڑوں کے اقوال پیش ہیں ان میں سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے اگر ہم سیکھناچاہیں ۔یہ میرے انتہائی پڑھے لکھے ملکوں ملکوں پھرنے والے پیارے دوست طاہر گردیزی کا بھیجا ہوا تحفہ ہے جو سب میں تقسیم کرکے ہی تسلی اور تشفی ہوگی۔
1۔تجربہ وہ کنگھی ہے جو زندگی میں ہمیں ایسے وقت کام دیتی ہے جب بال جھڑچکے ہوتے ہیں(بیلجیم کہاوت)
2۔جب چاند کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے تو بے وقوف ہاتھ کی انگلی کی طرف دیکھنے لگ جاتا ہے(چینی کہاوت)
3۔شریف وہ ہے جس کی گواہی کےلئے کوئی نہ آئے(روسی کہاوت)
4۔جلدی میں شادی کروگے تو فرصت میں پچھتاؤگے(چینی کہاوت)
5۔ہر مسکراتے چہرے کے پیچھے مسکراتا دل نہیں ہوتا(چینی کہاوت)
6۔مردوں کو سمجھو اور عورتوں کو پڑھو(فرانسیسی کہاوت)
7۔اچھے لوگوں کی خوشبو ہوا کی مخالف سمت بھی پہنچ جایا کرتی ہے (چینی کہاوت)
8۔غم آدمی کو عقل مند بنادیتا ہے (عربی کہاوت)
9۔غیر جانبدار منافق ہوتا ہے (یونانی کہاوت)
10۔الفاظ کے پیچھے مت بھاگو بلکہ خیالات کو تلاش کرو(یونانی کہاوت)
11۔بچے خوشیاں بانٹنے والی مخلوق ہیں (ثینی کہاوت)
12۔اگر جنگ کے لئے مراثی کے پتر کی ضرورت پڑ گئی ہے تو بہتر ہے صلح کرلو(پاکستانی کہاوت)
13۔آسمان کا حسن تاروں سے ہے اور عورت کا حسن بالوں سے(اطالوی کہاوت)
14۔صرف بیوہ ہی بتا سکتی ہے کہ اس وقت اُ س کا شوہر کہاں ہے (امریکی کہاوت)
15۔سانپ کا ڈسا ہوا ٹھیک ہوسکتا ہے لیکن عورت کاڈسا لاعلاج ہے(یونانی کہاوت)
16۔فضول امیدیں بے وقوف کا خزانہ ہیں (عربی کہاوت)
17۔شادی کے دن دلہن سے زیادہ کوئی عورت خوبصورت نہیں ہوتی(اسپینش کہاوت)
18۔جس کے سب ہی دوست ہوں ،اس سے تعلق پر نظر ثانی کرو(عربی کہاوت)
19۔ لالچی بیوی سے برا ساتھی کوئی نہیں (روسی کہاوت)
20۔حاسد اپنی زندگی ہی میں مر جاتا ہے(عربی کہاوت)
21۔بیماری تیز رفتار گھوڑے پر آتی ہے اور پیدل واپس جاتی ہے (بیلجیم کہاوت)
22۔بے کار لوگ شیطان کو اکساتے ہیں (ہنگرین کہاوت)
یہ وہ کہاوتیں ہیں جومختلف معاشروں کی تہذیبی ومعاشرتی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں ہیں ۔ان میں کچھ کائناتی سچائیاں ہیں جن کا ادراک ایک کامیاب زندگی کی ضمانت بن سکتا ہے ۔مگر شرط یہ ہے معروضی شعور کے ساتھ جینے کا عزم کر لیں کیونکہ معروضی شعور ہی تبدیلی کا اصل زینہ ہوتا ہے جس کا ترقی کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے ۔مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم چولی اور دامن الگ الگ کرکے جیتے ہیں ۔وللہ اعلم با الصواب
فیس بک کمینٹ