یہ طے شدہ امر ہے کہ جمیعت علمائے اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن پاکستانی سیاست کے ایک نابغہء روزگار کردار کی حیثیت رکھتے ہیں،ان کی سیاسی بصیرت کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے،وہ ملکی اور اور بین الاقوامی صورت حال خصوصاََ دوست اسلامی ممالک کے تعلقات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ان کی نپی تلی رائے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کو سمجھنے کے لئے بہت صائب اور قابل اعتنا ہوتی ہے،وہ سیاسی اتحاد بنانے اور ان کی حکمت عملی تیار کرنے میں سیاسی، سماجی اور نفسیاتی عوامل کا دھیان رکھتے ہیں اور اس امر پر خصوصی توجہ مرکوز رکھتے ہیں کہ معروضی سیاسی تقاضوں کے مطابق لائحہ عمل طے کیا جائے۔عام طور پر ان کے فیصلوں میں بابائے سیاست نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کے سیاسی فکر کا عکس دکھائی دیتا ہے،تاہم ان کی اپنی دانش کا عمل دخل زیادہ جھلکتا ہے،وہ اپنے ہمعصر سیاستدانوں کے فکری رویوں کو اچھی طرح سمجھتے بوجھتے ہیں اس لئے سیاسی اتحاد ترتیب دیتے وقت عصری سیاسی تقاضوں سے کہیں بھی صرف نظر نہیں کرتے۔
موجودہ اتحاد (اے پی سی) جو جے یو آئی ایف،پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہونے جارہا تھا،جس کی بنیاد پر سیاسی تحریک کا فارمولا یا لائحہ عمل تیار کیا جانا تھا اس کے بننے سے پہلے ہی کچھ رخنے اور کچھ غلط فہمیاں درمیان میں حائل ہوگئی ہیں،جن کیوجہ سے مولانا کے لہجے میں دلگرفتگی دکھائی دیتی ہے۔حالات و واقعات اس امر کے غماز ہیں کہ
ن لیگ اور پی پی پی کے مرکزی رہنما میاں شہباز شریف اور بلاول زرداری مولانا سے دامن بچانے یا کنی کترانے کی کوشش کررہے ہیں،وہ کسی طور حکومت کے خلاف اتحاد کا راستہ اپنانا نہیں چاہتے۔صاف ظاہر ہے شہباز شریف نیب کے دباؤ میں ہیں ان پر نت نئے الزامات کی فائلیں کھلتی جارہی ہیں،کوئی دن نہیں نیب ان کو اٹھا کر جیل میں ڈال دے اورموصوف ابھی قید وبند کی صعوبت کے کسی لحاظ سے متحمل نہیں،جہاں تک بلاول زرداری کی بات ہے وہ اے پی سی پر اس لئے آمادہ نظر آتے کہ انہوں نے اسفند یار ولی کے بیٹے ایمل یار ولی سے ملاقات کی ہے جس میں بظاہر این ایف سی ایوارڈ پر اتفاق رائے کی بات کی گئی اور اٹھارہویں ترمیم پر عمل کے لئے مشترکہ جدوجہد کا اعلامیہ پیش کیا گیا تاہم تازہ ترین سیاسی صورت حال اور اس میں اپوزیشن کے کردار پر بھی گفتگو کی گئی۔
سچ تو یہ ہے کہ ایسی خوش فہمی میں غلطاں نہیں رہنا چاہئے کہ حکومت من مانی کی روش پر چل کر اپنا وقت پورا کر لے گی اور کوئی سیاسی اتحاد یا متحدہ رد عمل اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکے گا۔اسے معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کی سیاست امکانات کا سفر ہے اس سفر میں کہیں بھی گفتہ نا گفتہ واقعہ پیش آسکتا ہے اور عمران حکومت ایسی کسی ان ہونی کے ہوجانے سے بھی سراسربے بہرہ ہے وبے خبر دکھائی دیتی ہے۔
فیس بک کمینٹ