اختیارات عہدے اور منصب کی کشش انسان کو پیچھے مڑکر نہیں دیکھنے دیتی،اگر اکتفا کا جذبہ غالب ہوتا تو سائیں سیدیوسف رضا گیلانی ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں یعنی سپیکر قومی اسمبلی اور وزیر اعظم پاکستان رہنے کے بعد کسی طور سینیٹ کا الیکشن نہ لڑتے ۔مگر برا ہو اقتدار کی کرسی کا،یہ انسان سے استغنا کے ساتھ صبرو قناعت بھی چھین لیتی ہے ۔عجزو انکسار اور بے مثل تواضع کی صفات کے حامل سائیں یوسف راضا گیلانی سے یہ توقع نہیں کی جاتی تھی کہ وہ اتنی آسانی سے سینیٹ کے امیدوار بننے پر آمادہ ہوجائیں گے کہ انہوں نے دوہزار اٹھارہ کے انتخابات میں اپنے حلقے کے عوام سے جوزخم کھایا تھا وہی بہت کاری تھا اور بتانے والوں نے یہاں تک بتایا کہ ان کے بیٹوں نے انہیں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے سے شدت سے روکا تھا بلکہ ان کے ایک بیٹے نے تو ان کے مقابلے میں آنے کی دھمکی تک دے دی تھا مگر سرکار نہیں مانے ۔اس قربانی کے لئے وہ زیادہ سے زیادہ اپنے کسی فرزند کو پیش کر سکتے تھے کہ وہ اگر فتح یاب نہ بھی ہوتا تو فرق نہیں پڑنا تھا ،مگر یہ سید کی سادگی اور تواضع ہی سمجھیئے کہ پارٹی کے سامنے سپر انداز ہوگئے ،ان کے اس ناصائب فیصلے نے ان کے بہت سارے چاہنے والوں کے دلوں کو وسوسوں اور واہموں کا گھر بنا دیا ہے ،وہ جنہیں ان کی سیاسی بصیرت فراست پر کامل یقین اور بھروسہ تھا اندریں اندر سے تو لرز ہی گئے ہیں۔
بہر حال یہ گیلانی صاحب کے حوصلوں کا کڑا امتحان ہے ۔گراں باریءدل کے باوجود دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہوئے بھی ڈرلگتا ہے کہ بزرگوں سے سنا ہے ایسی دعا سے گریز اچھا ہے جو دل سے نہ نکلے اور جس کے مستجاب ہونے کے یقین کی ایک رتی بھی قلب میں نہ ہو ،ویسے آواز خلق کے لحاظ سے بھی دھیان نقارہءخدا کی جانب جاتا دکھائی نہیں دیتا۔ دوہزار ا ٹھارہ میں جو بے مروتی ان کے حلقہ انتخاب والوں نے برتی تھی اب اس سے بڑھ کر ایک ہزیمت پی ڈی ایم بلکہ پی ایم ایل این کی جھولی میں بھرنے جارہی ہے ۔
خاکم بدہن اگر نامراد شکست نے انہیں آلیا تو اس پیرانہ سالی میں وہ خود کو کیسے سنبھال پائیں گے ،اس پر مستزاد لاکھوں کشتگان مرشد کیوں کریہ غم سہار پائیں گے؟حضور کے کئی چاہنے والوں کے کلیجے ابھی سے منہ کو آتے دیکھے ہیں اور بار بار مختار مسعود مرحوم کا یہ اقتباس دماغ میں گردش کررہا ہے کہ” قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔مرگ انبوہ کا جشن ہوتو قحط ،حیاتِ بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔۔۔اس وبا میں آدمی کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ مردم شماری ہو تو بے شمار ،مردم شناسی ہو تو نایاب“۔
آخر پی پی پی میں کیا قحط الرجال پڑا ہے کہ پی ڈی ایم کی قربان گاہ پر اتنا بڑا چڑھاوا چڑھانے لگی ہے ۔سابق وزیر اعظم ہی مقصود و مطلوب تھا تو پرویز اشرف کو مولانا کی بارگاہ میں پیش کردیتی ،سید میراں کی جھولی کے لئے ایک روگ کافی نہیںتھا جو جواں سال بیٹے کی لمبی جدائی کی صورت انہوں نے جھیلا ،اب ایک ارو روگ سے ان کی جھولی بھرنے کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔
سابق صدر آصف علی زرداری شاید اس زعم میں مبتلا ہیں کہ سنجرانی کی طرح سید یوسف رضاگیلانی کو بھی سینیٹ کا چیئرمین منتخب کروالیں گے۔ان کی سوچ کی بلندی تک نہیں پہنچا جا سکتا ،مگر معروضی حالات جو سامنے ہیں ان میں زرداری صاحب کا فارمولا بظاہر فٹ ہوتا دکھائی نہیں دیتا ،اوپر والوں نے انہیں کوئی یقین دہانی کروادی ہے تو الگ بات ہے ،پھرتو کچھ لوگوں کا یہ خواب کہ آئیندہ وزیر اعظم بلاول ہونگے ،بھی تعبیر کے لمس سے آشنا ہوسکتا ہے ،مگر امکانات کے ایسے در واہوتے نظر نہیں آتے کہ اس رستے کی سب سے بڑی دیوار مسلم لیگ ن جو شہباز شریف پر ادھار کھانے کی روادار نہیں ،پھر بلاول تو ذوالفقار علی بھٹو شہید کا نواسہ اور محترمہ بینظیربھٹو کا بیٹا ہے ،جن کے بغض سے میاں نواز شریف کا سینہ کبھی تہی نہیں ہوسکتا۔مولانا تو اب بھی بلاول کے دروازے پر گھنٹوں انتظار کر سکتے ہیں جیسے محترمہ کے دفتر کے باہر تشریف فرما رہے اور باریابی پائی تو کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کا تمغہ سینے پر سجائے بغیر نہیںآئے۔
سابق وزیر اعظم ایک نفیس طبع ،وضع دار آدمی ،جانتے بوجھتے ایک قعر میں چھلانگ لگا رہے ہیں ،جو کالے دھن سے ناک تک بھرا ہے ۔لکشمی تو ہوتی ہی رقاصہ ہے اس کے رقص کو کون روک سکتا ہے ۔ہمارا عدالتی نظام ایسا نہیں کہ تماشے میں گھری سیاسی طوائف کو تماش بینوں کے حصار سے نکال سکے۔
کل سید یوسف رضا گیلانی کے حلقہ کے ایک بہت جید صاحب نے اپنے دل و دماغ میں کلبلاتے ایک وسوسے کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ” مجھے لگتا ہے جیسے ایک نئی افتاد مرشد کے پیچھے کھڑی مسکرا رہی ہے “۔ اسے کیا نام دوں کہ اس پر خودخجل ہوا جاتا ہوں ۔
دروغِ مصلحت آمیز جب عروج پہ ہو
تو آس پاس کہیں چیختی ہے سچائی