ڈاکٹر سلیم اختر پاکستان کے نامور نقاد،ماہر لسانیات،افسانہ نگار، معلم،محقق،ادبی مورخ اور ماہر اقبالیات تھے۔ ڈاکٹر سلیم اختر درس و تدریس کے شعبے سے منسلک رہے۔ انہوں نے بطور خاص فکر اقبالؒ اور نفسیات پر شاندار کتب لکھیں جنہیں اندرون و بیرون ملک بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ اردو ادب کی مختصر تاریخ، ادب اور کلچر، کڑوے بادام اور رات کی مخلوق جیسی شہرہ آفاق کتب کے خالق ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کو ادبی حلقوں میں ماہر لسانیات اور ممتاز نقاد کی حیثیت بھی حاصل رہی ۔مرحوم کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس سمیت کئی دیگراعزازات سے بھی نوازا گیا۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے بطور اردو لیکچرار پہلی ملازمت گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان میں کی۔ وہاں آٹھ سال رہنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے۔ 1994ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد اگلے گیارہ سال آپ یہاں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر پڑھاتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں درس وتدریس کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے ۔ڈاکٹر سلیم اختر اردو کے ان معدودے چند نقادوں میں شامل ہیں جو نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین تخلیق کار بھی ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کی پہچان تین حوالوں سے ہوتی ہے۔ بطور نقاد، افسانہ نگار اور استاد۔ ان کی کتاب اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ اردو ادب کی اب تک لکھی گئی تاریخ میں ایک اہم حوالہ تصور کی جاتی ہے جسے شہرتِ دوام حاصل ہے ۔ایک انٹرویو میں آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے تحقیق، تنقید، افسانے ، طنزو مزاح ، نصاب، سفر نامے اور دیگر اصناف میں ۹۰ سے زا ئد کتابیں لکھیں ، کیا یہ ۹۰ یا ۱۰۰ کتابوں کا ”ٹارگٹ” تھا یا واقعی یہ کتابیں آپ کا سرمایہ ہیں؟ تو ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ
ٹارگٹ تو ہرگز نہیں تھا اور ایک قلم کار کے لیے ہو بھی نہیں سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ میں ایک تیز رفتار قلم کار ہوں۔ گرمی اور حبس کے چار مہینے میری زندگی سے خارج ہیں۔ ان میں، میں کوئی کام نہیں کر سکتا، لیکن جب میں لکھوں تو پھر ایک مزدور کی طرح محنت کرتا ہوں۔ میرا یہ کا م موسمِ سرما میں ہوتا ہے، جب ۱۵، ۲۰ مقالے جمع ہو جاتے ہیں، تو ایک کتاب بن جاتی ہے۔میری تصانیف میں خود نوشت، سوانح عمریاں، تحقیق تنقید، افسانے، طنزومزاح اور دوسری اصناف شامل ہیں۔ افسانوں کے پانچ مجموعے چھپ چکے ہیں۔ایک ناولٹ ”ضبط کی دیوار” بہت مشہور ہوا۔ اس کا ہندی ترجمہ بھی ہوا اور جامعۃ الازہر، قاہرہ کی ایک طالبہ ، جس نے مجھ پر تھیسز لکھا، اس ناولٹ کا عربی ترجمہ بھی کیا۔جہاں تک زورنویسی کا تعلق ہے، اگر یونی ورسٹی کا ایک پروفیسر یونی ورسٹی کی سیاست میں حصہ نہ لے، اکیڈیمز میں ٹیوشنز نہ پڑھائے ، تو وہ بہت علمی اور تحقیقی کام کر سکتا ہے، تو میں نے اپنی ساری توانائی لکھنے اور پڑھنے میں استعمال کی۔بلاشبہ ڈاکٹر سلیم اختر اردو زبان کا قیمتی اثاثہ تھے ان کی وفات کے ساتھ اردو کا ایک عہد ختم ہو گیا ۔
فیس بک کمینٹ