ہم سب کی زندگیوں سے ایک اور سال چھن گیا ، عمر رواں کا ایک اور برس عہدرفتہ کا حصہ بنا مگر ہم جشن سال نو میں اپنے ساتھ ہونے والے اس ہاتھ پر توجہ ہی نہ دے سکے ۔ اب کے برس یہ جشن کچھ پہلے جیسا اور کچھ بالکل مختلف تھا لگتا ہے کہ ہمیں تو خوشیاں منانے کا ڈھنگ ہی نہیں آتا۔ پوری دنیا میں سال نو کا آغاز اپنے اپنے عقائد اور جذبوں کے مطابق ہوا ، کہیں نوافل ادا کئے گئے ، بہتری اور ردِ بلا کی دعائیں ہوئیں ، کہیں آتش بازی نے ایک لمحہ کے لئے خلاﺅں تک گھورنے کے مواقع دیے ، رنگ بکھیرے گئے ، ناچ گانے ، اچھل کود آب انگور کے ساتھ مستی ، تیز موسیقی کے ساتھ ”رقص“ ، ون ویلنگ اور شراب و شباب کی محفلیں سجیں مگر ہم بے قابو ، بے ترتیب ، بے ہنگم اور حواس باختہ ہجوم ڈھنگ سے سال نو بھی نہ منا سکے یا ہمیں منانے ہی نہیں دیا گیا۔ متعدد بڑے شہروں میں دفعہ 144 نافذ کی گئی اور ہر طرف پولیس سکواڈ اس تمکنت کے ساتھ ایستادہ رہے جیسے پھر کسی ”شب خون“ کی تیاری ہو۔ حیدر آباد، سکھر اور پنجاب کے کئی شہروں میں لائٹس بند کروا دی گئیں ، دکانیں اور ہوٹل کھولنے والوں کو زبردستی تالا بندی پر مجبور کیا گیا، فلائی اوور بند ، راستے بند ، بازار بند کرکے ایک روایتی محاصرہ قائم کردیا گیا۔ منچلوں کے ساتھ ساتھ خوشیوں کی تلاش میں نکلنے والے شرفاء اور فیملیز کو بھی یہ پیغام دیا گیا کہ چہروں پہ مسکراہٹ اور آوازوں میں قہقہے قابل تعزیر ہوچکے ، یہاں صرف سسکنے ، کڑھنے ،رونے اور ماتم کرنے کی اجازت ہے ۔ دہشت گردی ، انتہاپسندی ، معاشرتی جبر اور معاشی ناہمواری کی چکی میں پسنے والے یہ اداس لوگ پھر بھی کہتے رہے کہ:
تیرے ہجراں سے تعلق کونبھانے کے لئے
ہم نے اس سال بھی جینے کی قسم کھائی ہے
کوئی ہے جو ان سے پوچھے کہ وارداتوں پر قابو نہ پانے والوتمہیں اپنے ہی ہم وطنوں پر زمین تنگ کرنے کی اجازت کون دیتا ہے؟
نئے سال میں کچھ نیا کرجانے کا سرکاری عہد اور انفرادی عزم ایسا بھی تو ہوسکتا ہے جو بظاہر نئے پاکستان کے لئے اک نیا سنگ میل ہو ۔ عزت نفس کا عہد، ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت نہ کرنے کا عہد ، ہر شہری کو صرف ایک ووٹ برائے فروخت سے ہٹ کر عزت دینے اور تحفظ دینے کا عہد ، بندوقوں کے سائے میں سیاسی فیصلے نہ کرنے کا عہد ، جمہوریت کو چند خاندانوں کی لونڈی بنانے اور سمجھنے والوں سے سیاسی ترک تعلقات کا عہد، مذاہب کو ان کی اصل روح کے مطابق سمجھنے اور عمل کرنے کا عہد ، وہ تمام عہد جو صرف سوچے تو جاسکتے ہیں کہے نہیں جاسکتے ۔
ہماری ہر حرکت تیز تر رہی تھی مگر پھر بھی سفر آہستہ آہستہ تھا ، کاش اس برس ہم رہبروں اور رہزنوں کے درمیان ایک شناختی لکیر کھینچ سکیں ، مگر ایسا ممکن نہیں کہ سال کوئی بھی ہو پیٹ کا دوزخ وہی سال ہا سال سے پرانا پاپی ہے جو اپنی بھوک مٹانے کے لئے کسی کا حق مارنے اور اکثر جان سے مارنے پر تلا رہتا ہے ۔
کوئی تو ہو جو ہم سب میں خوشیاں بانٹے ، سال نو کے جشن کے رنگ میں بھنگ ڈالنے سے گریز کرے ، یہ روشنیاں گل کرنے والے ، یہ آباد علاقوں میں سنسان اور اداس ماحول تقسیم کرنے والے ”راستہ بند ہے“ کے بورڈ اتار کر اپنے گھر کیوں نہیں جاتے ؟
”یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں ، مر کیوں نہیں جاتے ؟“
ہمیں چھوٹی چھوٹی خوشیاں دینے والو ں کا بھی شکریہ جنہوں نے :۔
”بجلی آگئی ہے “
”آج تو بازار کھلا ہے!“
” سٹیٹ بنک کرپشن فری پاکستان کے لو گو سے پچاس روپے کا سکہ جاری کرے گا “
”قوم کو مبارک ہو، 172نام ECLپر ڈال دیے گئے“
”گورنر راج لگا تو ایک منٹ میں اڑ جائے گا“
” ایوان صدر کے دروازے عام شہریوں کے لئے کھول دیے گئے“
مذکورہ بالا خوشیاں ہی ہم جیسی ”عوام “ کے لئے کافی ہیں حالانکہ ان تمام عنایات سے ہمارا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں بنتا ۔ ہمارے لئے نئے سال کی سب سے بڑی خوشی یہی ہے کہ ہم زند ہ ہیں اور ہمارا ملک پاکستان سلامت ہے ۔ آخر میں اپنے بھائی نوازش علی ندیم کے اشعار:
اڑان کو بھی میان قفس گزارتا ہوں
میں ہر برس کوئی پچھلا برس گزارتا ہوں
بدن پہ زخم اٹھاتا ہوں تین سو پینسٹھ
ہر ایک دن کو میں یوں نس بہ نس گزارتا ہوں
فیس بک کمینٹ