چیف جسٹس ثاقب نثار نے بجا طور سے استفسار کیا ہے کہ ہاﺅسنگ سوسائٹیاں بنانا فوج کا کام ہے؟ کس ملک کی فوج ہاﺅسنگ اسکیمیں چلا رہی ہے؟ تاہم ملک کے متحرک اور بنیادی حقوق کے بارے میں حساس چیف جسٹس کو یہ سوال پوچھنے کا خیال اس وقت آیا جب ان کی اپنی ریٹائیرمنٹ میں اٹھارہ دن باقی رہ گئے ہیں اور وہ عملی طور سے ملکی معیشت میں فوج کی دخل اندازی، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں سرمایہ کاری اور منافع خوری اور اس طرز عمل کا فوجی افسروں کی پیشہ وارانہ کارکردگی پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں کوئی اہم فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ورنہ اگر انہوں نے عائشہ صدیقہ کی کتاب ’ملٹری انک : فوجی معیشت کی اندرونی کہانی‘ پڑھی ہوتی تو انہیں اندازہ ہوسکتا تھا کہ فوج سرحدوں کی حفاظت کے نام پر حاصل ہونے والے وقار اور عزت و احترام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملکی معیشت کے تیسرے حصے پر قابض ہے۔
محققہ عائشہ صدیقہ نے 2007 میں یہ کتاب لکھی تھی لیکن اس وقت ملک کے اقتدار پر قابض جنرل پرویز مشرف نے پاکستان میں اس کتاب کی تقسیم پر پابندی لگاتے ہوئے مصنفہ کو ملک دشمن قرار دیا تھا۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود فوج یا اس کا کوئی متعلقہ ادارہ یہ ثبوت فراہم نہیں کرسکا کہ عائشہ صدیقہ نے فوج پر ملکی معیشت کے مختلف منصوبوں میں ترجیحی بنیادوں پر فوائد حاصل کرتے ہوئے اسے ملکی آڈٹ یا کنٹرول کے دوسرے طریقوں سے محفوظ رکھ کر جو اقتصادی حیثیت ور اہمیت حاصل کی ہے، اس نے سیاسی اقتدار پر تصرف کے بارے میں اس کی ضرورتوں میں اضافہ کیا ہے۔
عائشہ صدیقہ نے البتہ 2017 میں اپنی کتاب کی اشاعت کی ایک دہائی مکمل ہوجانے پر اس کا نیا ایڈیشن شائع کیا ہے جس میں انہوں نے فوجی اداروں کے عدم تعاون کے باوجود بعض حقائق تک پہنچنے اور نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر چیف جسٹس نے یہ کتاب یا اس کا خلاصہ ملاحظہ کیا ہوتا تو انہیں اس بات پر حیرت نہ ہوتی کہ فوج ہاﺅسنگ سوسائیٹیاں چلا رہی ہے۔
آج ایڈن ہاﺅسنگ سوسائیٹی کے متاثرین اور ڈیفنس ہاﺅسنگ سوسائیٹی کے ساتھ اس کے تعلق کے حوالے سے ایک مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے یہ بنیادی اصول اور آئینی پوزیشن واضح کی ہے کہ ’فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ اسے کمرشل سرگرمیوں میں حصہ لینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ‘ کیا کسی دوسرے ملک کی فوج یہ کرتی ہے ’؟ جب ڈی ایچ اے کے نمائیندہ نے بتایا کہ ملائیشین فوج ہاﺅسنگ سوسائٹیز کا کام کرتی ہے۔
تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ‘ کیا آپ نے صرف ایک ہی ملک کی فوج کو اپنا ماڈل بنا لیا ہے ’۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ‘ جب سے آپ ہاﺅسنگ اسکیموں میں گئے ہیں، آپ کا نام خراب ہوا ہے۔ آپ نے جو زمینیں خریدیں وہ متنازع تھیں اور ایسا کرکے آپ نے اپنی ساکھ بھی بیچ دی۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ لوگ (ڈی ایچ اے ) بیواﺅں اور شہیدوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرکے اپنا کاروبار چلاتے ہیں اور ان کے نام پر رائلٹی لیتے ہیں ’۔
یہ بات چیف جسٹس کہہ سکتے ہیں کیوں کہ ملک کا کوئی شہری یا صحافی اگر اس قسم کا استفسار کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے ملک کا دشمن اور قومی مفاد کے خلاف کام کرنے والا قرار دینا بہت آسان ہے۔ لیکن چیف جسٹس صاحب کو بھی یہ سوال اٹھانے خیال اسی وقت آیا ہے جب وہ عدالت عظمیٰ کے عہدہ پر تین برس تک فائز رہنے کے بعد تقریباً دو ہفتے بعد اس عہدہ جلیلہ سے سبکدوش ہونے والے ہیں۔ جس کے بعد خود ان کے بقول ’ان کے امتحان کا نتیجہ سامنے آئے گا‘۔
یعنی لوگ دیانت داری سے یہ رائے دے سکیں گے ثاقب نثار نے بطور جج اور چیف جسٹس کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ان کی یہ بات بلاشبہ درست ہے کیوں کہ پاکستان میں جس سماجی اور سیاسی مزاج کو فروغ دیا گیا ہے اس میں چڑھتے سورج کی پوجا کرنا بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے کوئی کتنا ہی حقیقت پسند یا سچ تلاش کرنے کا دعوے دار ہی کیوں نہ ہو، وہ چیف جسٹس کی کرسی پر براجمان کسی شخص کی کم ہمتی، کج فہمی، اختیار سے تجاوز، ناقص کارکردگی یا غیر متوازن رویہ کی نشاندہی کرنے کا حوصلہ نہیں کرسکتا۔
کیوں کہ ہمارے سیاسی و فوجی لیڈروں کے علاوہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں نے بھی یہ طریقہ متعارف کروایا ہے کہ ہر تنقید کو توہین، کار سرکار میں مداخلت یا ملکی مفاد کے خلاف حرکت قرار دیا جائے۔ خود چیف جسٹس کے طور پر ثاقب نثار صاحب نے توہین عدالت میں درجنوں لوگوں کو طلب کیا اور انہیں ’غیر مشروط‘ معافی مانگنے، عدالت کے سامنے خود کو احمق تسلیم کرنے پر مجبور کرنے کے علاوہ مختلف نوعیت کی سزائیں دینے کا اہتمام بھی کیا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار جب یہ کہتے ہیں کہ لوگوں کی اصل رائے تو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی سامنے آئے گی تو دراصل وہ اپنی اس ناکامی کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ خود بھی اس نظام کو بدلنے میں ناکام رہے ہیں جو عوام کی مشکلات اور پریشانیوں میں اضافہ کا سبب بنا ہوا ہے۔ آج ہی اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ’ان پر عدالتی نظام درست نہ کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن عدلیہ کو قانون سازی کا اختیار نہیں ہے۔
وہ تو صرف قانون کی تشریح کر سکتی ہے۔ اگر حکومت قانون نہیں بنائے گی اور لا کمیشن کی سفارشات نہیں مانی جائیں گی تو عدالتی نظام میں عام آدمی کی تکلیفیں رفع نہیں ہو سکتیں‘۔ چیف جسٹس جب ملک کے با اختیار ترین عہدے پر سرفراز ہوکر براہ راست اپنے زیر انتظام و اختیار عدالتی نظام کی اصلاح کے بارے میں اس بے چارگی کا اظہار کر رہے ہیں تو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جب ان کے ’امتحانی پرچہ‘ کا نتیجہ سامنے آئے گا تو یہ سوال بھی اٹھائے جائیں گے کہ اگر آپ کو عدالتی نظام تک درست کرنے کا اختیار نہیں تھا تو ڈیم بنانے اور آبادی کنٹرول کرنے کے منصوبے شروع کرنے اور زیر سماعت مقدموں میں سائیلین کو ڈیم فنڈ میں عطیات دینے کا اختیار کہاں سے حاصل ہو گیا تھا۔
اس قسم کے کسی طرز عمل کو عوام کی بہبود اور قوم کی خدمت جیسی دلیل سے درست ثابت کرنے کی کوشش ریٹائرمنٹ کے بعد شاید درست تسلیم نہ کی جائے۔ کیوں کہ اس وقت کوئی صحافی یا تجزیہ کرنے والا توہین عدالت کے چابک سے بلا خوف اس بارے میں سوال اٹھا سکے گا۔ چیف جسٹس نے کل ہی بحریہ ٹاﺅن کے ملک ریاض کو پہلے ایک ہزار ارب اور پھر 500 ارب روپے ’ڈیم فنڈ‘ میں عطیہ کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر وہ یہ رقم فراہم کردیں تو میں بذات خود ایسے بنچ کا حصہ بن کر آپ کو ہر قسم کے الزامات سے بری کروا دوں گا‘۔
ثاقب نثار نے شاید غور نہیں کیا کہ ان کی یہ پیش کش دراصل ’انصاف فروشی‘ سمجھی جائے گی اور کسی مہذب معاشرہ میں کوئی جج کسی ملزم کو کسی بھی نیک کام میں، کسی بھی رقم کے عوض الزامات سے بری کرنے کی ضمانت فراہم نہیں کرسکتا۔ اگر ملک کے چیف جسٹس کی کرسی پر بیٹھنے والا شخص بھی اس عہدہ کی ذمہ داری، قانون کی اہمیت اور انصاف کے تقاضوں کے بارے میں اتنی بنیادی بات سے سر عام انحراف کرنا معیوب خیال نہیں کرتا، کیوں کہ اس کا خیال ہے کہ ایسا کرنا قوم کے بہترین مفاد میں ہے تو ملک کی فوج اور اس سے وابستہ ادارے اگر معاشی فائیدوں کے لئے ہاﺅسنگ سوسائیٹیاں بناتے ہیں یا دوسرے کاروبار کرتے ہیں تو انہیں کیسے ٹوکا جا سکتا ہے؟
عائشہ صدیقہ کی تحقیق کے مطابق پاکستانی فوج مختلف چھتریوں تلے بیشتر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق اقتصادی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ وہ پرائیویٹ سیکورٹی کمپنیاں چلاتی ہے، بنک و انشورنس کا کام کرتی ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویڑن چینلز اس کی سرپرستی میں چلتے ہیں، اس نے کھاد اور اشیائے خورد نوش بنانے کے کارخانے قائم کررکھے ہیں، وہ بیکریاں چلاتی ہے، فارمنگ کے کام میں اس کا حصہ ہے اور ملک میں فوج کی نگرانی میں چلنے والے پرائیویٹ اسکولوں کی بھی کمی نہیں ہے۔
عائشہ صدیقہ نے اس تحقیق سے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جب بھی کوئی ادارہ ملکی معیشت کے اتنے بڑے حصے پر حاوی ہوگا تو اسے سیاسی اثر و رسوخ کی ضرورت بھی محسوس ہو گی۔ اگر پاکستانی فو ج سیاست کو زیر تابع رکھنا چاہتی ہے تو اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ملکی معیشت میں اس کا اسٹیک بہت زیادہ ہے۔ وہ بھی کسی مالیاتی ادارے کی طرح سیاسی فیصلوں میں شریک ہونا چاہتی ہے تاکہ اپنے معاشی مفادات کا تحفظ کرسکے۔ کتاب کے دوسرے ایڈیشن مین عائشہ صدیقہ نے واضح کیا ہے کہ 2007 سے 2017 کے دوران فوج نے سیاسی منظر نامہ پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے۔
چیف جسٹس صرف ایک معاملہ یا ایک جواب پر ناراضگی ظاہر کرکے یہ ثابت نہیں کرسکیں گے کہ انصاف کرتے ہوئے وہ سب کے ساتھ مساوی سلوک کرتے رہے ہیں۔ کیوں کہ گزشتہ روز اصغر خان خان کیس کے فیصلہ پر عمل درآمد کے معاملہ میں ایف آئی اے کی طرف سے مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر رائے دیتے ہوئے انہوں نے یہ سوال نہیں اٹھایا تھا کہ فوجی افسروں کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا اختیار کس قانون کے تحت حاصل ہوا تھا۔ اس وقت تو وہ اصغر خان کے وارثوں کی رائے جان کر معاملہ کو ٹالنا چاہ رہے تھے۔
ملک میں جمہوریت کو تماشہ بنانے، عوامی حقوق کو نظر انداز کرنے کی روایت راسخ کرنے، سیاسی بے یقینی پیدا کرنے اور صوبوں کے درمیان دوریاں پیدا کرنے میں فوج سے متعلق اداروں کے کردار کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایسے ہر معاملہ میں عدالتیں فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہیں۔ تو وہ کس منہ سے کسی فوجی ادارے کو مالی منفعت کے لئے کام کرنے پر شرمندہ کر سکتی ہیں۔
(بشکریہ:کاروان۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ