محمد اعجازالحق کی کتاب "اقبالؒ اور شیکسپئر ” کا عنوان خود ہی دو تہذیبوں کی نمائندگی کر رہا ’’اقبال اور شیکسپئر‘‘ معروف اقبال شناس اعجازالحق اعجاز کی تازہ تصنیف ہے جو حال ہی میں ’’عکس‘‘ سے شائع ہوئی ہےیہپ کتاب اقبال اور شیکسپئیر کے تقابلی مطالعے پر مبنی ہے۔۔ بلاشبہ اقبال پر اردو ادب کو ناز ہے۔جیسے انگریزی ادب شیکسپئیر پر اطالوی ادب دانتے پر، اور جرمن ادب گوئٹے پر فخر کرتا ہے۔مغرب کی شاعری کی ابتدا کو دو ڈھائی ہزار سال بیت گئے ہیں تو مشرق میں بھی تو شاعری کی ابتدا کو دو ڈھائی ہزار سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ۔ چنانچہ اگر انگریزی شاعری کو لاطینی‘ یونانی‘ اطالوی فرانسیسی اور جرمن ادبیات کے ورثے ملے ہیں تو اردو شاعری کو بھی سنسکرت ‘ فارسی ‘ عربی ادبیات کے ورثے ملے ہیں۔ رہی انگریزی شاعری کی اپنی عمر تو چاسر ‘ اسپنسر‘ سے شیکسپئر تک یعنی سترھویں صدی عیسوی تک انگریزی زبان و ادب اور شاعری کا تشکیلی دور ہی چل رہا تھا اور شیکسپئر تک کی زبان آج اتنی نامانوس ہے کہ اس سے پور ا لطف لینے کے لیے تشریحی نوٹس کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اردو شاعری کا بھی یہی حال سترھویں صدی تک ہے جبکہ اٹھارویں صدی سے اردو شاعری کے پختہ نمونے صا ف اور سلیس زبان میں ملنے لگتے ہیں۔ اگر شیکسپئر اور اس کے معاصرین کو ہی انگریزی شاعری کا کلاسیکی معمار تصور کر لیا جائے تو زیادہ سے زیاد ہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انگریزی شاعری کے پختہ نمونے صاف اور سلیس زبان میں سترھویں صدی سے ملنے لگے ہیں۔ اس طر ح اردو اور انگریزی شاعری کی ارتقائی عر صہ کا فرق تقریباً ایک ہی صدی کا ہو گا۔اقبال اور شیکسپئر دو ایسی اور قد آور شخصیات ہیں جنھوں نے اپنے قلم سے ادب کے بہتے ہوئے سمندر کا رُخ موڑ کر رکھ دیا اور ادب میں ایسی جہتیں پیدا کیں جس سے ادب نئی راہوں اور قدروں سے رُوشناس ہوا جن میں آفاقیت اور ابدیت کے عناصر آج بھی موجود ہیں ، کیوں کہ ادب نہ صرف قارئین کے ادبی ذوق کی تسکین کا سامان مہیا کرتا ہے بلکہ پوری دنیا اور انسانیت کے لیے ایسا آفاقی پیغام بھی دیتا ہے جس میں انسان کی روحانی اور مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اُس کی فطری صلاحیتوں میں بالیدگی اور نکھار پیدا ہوتا ہے۔ایک وقت ایسا آیا کہ چہار وانگ عالم میں علامہ اقبال کو فیلسوفِ اسلام اور حکیم الامت کے دل نواز القاب سے یاد کیا جانے لگا۔ جب اقبال نے یورپ کے دانش کدوں سے اکتساب علم و فلسفہ کیا تو بجائے اس کے کہ ان کے افکار و نظریات میں کوئی تزلزل پیدا ہوتا؛ وہ اسلام اور صاحب اسلام کے حد درجہ شیدا ہوگئے اور بہ بانگ دہل کہنے لگے:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہِ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے مری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ اقبال نے مغرب کے بہت سے فلسفیانہ خیالات کو درخور اعتنا سمجھا اور اور ان کو دقتِ نظر سے دیکھا اور ایک مضبوط و مستحکم فکری و نظری معیار سے انھیں پرکھ کر ردو قبول کا رویہ اپنایا۔ ہیگل کا تصورِ انسان، مارکس کا عینی اور مادی جدلیاتی ارتقا، نیٹشے کی لبرل بورژوا سوسائٹی اور اس کی قدروں کی تحقیر، مافوق البشر کا پیغام، برگساں کا تصورِ زماں اور اثباتِ وجدان، کانٹ کی انسانی عقل کی تنقید اور تجدید؛ غرض ان سب کا اقبال نے گہرا مطالعہ کیا اور علم و حکمت کے مغربی سرچشموں تک بلا واسطہ رسائی حاصل کرنے کی سعی بلیغ کی۔ اسرارِ خودی کے دیباچے میں اقبال نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ بعض موضوعات پر مغربی ادبیات کی حیثیت رہنمائی کا کام دیتی ہے۔
اعجازالحق اعجاز نے اس کا خوبصورت انداز میں اپنی کتاب میں تجزیہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں
"اقبال کے نزدیک زندگی محض تکرار نفس اور خورد و نوش کا نام نہیں ۔وہ حیاتیاتی اور جبلی ضرویات سے انکار نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ زندگی کے ارفع و اعلیٰ مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں
زندگانی نیست تکرار نفس
اصل او حیی و قیوم است و بس
جبکہ شیکسپیئر کے نزدیک بھی زندگی محض بنیادی ضروریات پورا کرنے کا نام نہیں اس کے نزدیک ایسا انسان جو زندگی کو صرف کھانے، پینے اور سونے کا نام سمجھتا ہے ۔حیوان کے مترادف” دونوں الگ الگ دور میں رہتے تھے لیکن دونوں دنیا کے لوگوں سے مخاطب رہے۔انکی شاعری انسانی جذبوں سے متعلق ہے۔
مصنف نے اپنی کتاب کے ذریعے مغربی ادب اور علامہ محمد اقبال کا خوبصورت انداز میں موازنہ کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ علامہ صاحب کا فلسفہ زیادہ بلیغ اور متنوع ہے.