کوئی بھی یہ نہ سمجھے کہ امتحان صرف میاں نواز شریف کا ہورہا ہے۔
آزمائش ہم سب کی سارے اداروں کی ہورہی ہے۔ تاریخ ہم سب کی صلاحیتیں ۔ استعداد اور حدّ دانش جانچ رہی ہے۔ کہ ہمارے جو بھی بیانیے ہیں ۔ منصوبے ہیں۔ لائحہ عمل ہیں۔ ان کے ردّ عمل میں جو ہونا ہے کیا ہم اس کو سنبھال سکیں گے۔ ہمیں پھر واپسی کا کوئی گیئر تو نہیں لگانا پڑے گا۔ ہم جنہیں مثبت نتائج سمجھ رہے ہیں ۔ وہ کل منفی تو نہیں نکلیں گے۔
ہم سب سرپٹ بھاگ رہے ہیں۔
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں
پہلی نسلیں شعروں کا مطلب سمجھ جایا کرتی تھیں اب اُردو اشعار کا مفہوم بھی بتانا پڑتا ہے۔ شاعر یہ کہہ رہاہے کہ زندگی کا گھوڑا دوڑ رہا ہے۔ جانے کہاں رکے۔ حالت یہ ہے کہ گھوڑے کی باگ ہمارے ہاتھ میں ہے اور نہ ہی ہمارے پیر صحیح طرح سے رکاب(لوہے کا حلقہ جس پر پاؤں رکھ کر زین پر چڑھا جاتا ہے) میں ہیں۔ انگریزی میں اسے Firmly in the Saddle کہتے ہیں۔ یادیں مجھے گھیر لیتی ہیں۔ میں دہلی میں تھا۔1974کی بات ہوگی۔ پاکستان سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ فون۔ نہ ڈاک۔ بلوچستان کی حکومت برطرف کردی گئی تھی۔ سرحد کی حکومت نے خود استعفیٰ دے دیا۔ٹائمز آف انڈیا کے سرورق پر کارٹون تھا۔ بھٹو صاحب گھوڑے پر سوار ہیں۔ گھوڑا تیز بھاگ رہا ہے۔ باگ بھی ڈھیلی ہے۔
بھٹو صاحب کے پاؤں بھی رکاب میں پوری طرح پیوست نہیں ہیں۔ نیچے لکھا ہوا تھا۔Firmly in the Saddle۔
مرضی کس کی چلتی ہے۔ جبر و قدر کا فلسفہ بہت پرانا ہے۔
نا حق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
گھوڑے سے اگر تیز تیز کہیں پہنچنا ہے تو اس کی باگ آپ کے ہاتھ میں ہونی چاہئے۔ اور گھڑ سواری کا کچھ تجربہ بھی ہونا چاہئے۔ ورنہ گھڑ سواری کا ارادہ بھی نہ کریں۔
عقلمند اس گھوڑے پر نہیں بیٹھتے۔ جس کی عنان کسی اور کے ہاتھ میں ہو۔
ایک زمانہ تھا کہ ہم ہیروز(اچھے لوگوں) کو تلاش کیا کرتے تھے۔ آج کل ہم ولن(بد قماش) ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں۔
ویسے تو ہر الیکشن ہی کسی بھی ملک کے لئے چیلنج ہوتا ہے۔ لیکن الیکشن 2018۔ زیادہ چیلنج لے کر آرہا ہے۔ غیر معمولی حالات ہیں۔ وہی پارٹی حکومت میں ہے اور وہی اپوزیشن میں۔ اصل اپوزیشن کو کسی محنت کی ضرورت نہیں رہی ہے۔
میں تو ہمیشہ آپ سے براہِ راست بات کرتا ہوں۔ آج مجھے قومی سیاسی پارٹیوں سے گفتگو کرنا ہے۔ سیاسی کارکنوں سے ہم کلام ہوچکا ہوں۔ انہوں نے میری باتیں پسند تو بہت کی ہیں۔ لیکن یہ کوئی اطلاع نہیں کہ انہوں نے اپنی اہمیت کو تسلیم کیا یا نہیں۔ اپنی پارٹی کے عہدیداروں۔ سربراہوں سے اپنا حق مانگا کہ نہیں کیونکہ وقت یہی ہے جب میاں۔ چوہدری ۔خان۔ سائیں۔ مولانا۔ بھائی۔ وڈیرا سب آپ کی بات سنیں گے۔اس کو وزن دیں گے۔
میں تو ہر سیاسی پارٹی کا اس کے سربراہ کا احترام کرتا ہوں۔جس کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کے نائب حضرت انسان کم یا زیادہ تعداد میں ہیں۔ وہ یقیناً لائق تکریم ہے۔میری گزارش یہ ہے کہ صرف یہ الیکشن نہیں۔ پاکستان کے پورے مستقبل کا انحصار آپ پر ہے۔ 20کروڑ ہم وطن آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ جمہوریت آپ کے دم سے ہے۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی آپ ہیں۔ پاکستان کے آئین کی حرمت آپ سے ہے۔ ایک ایک پاکستانی کے جان و مال کا تحفظ آپ سے ہے۔ پنجاب ہو۔ جنوبی پنجاب۔ سندھ۔ شہری یا دیہی۔ کے پی ۔ فاٹا۔ بلوچستان۔ ہر علاقے کی خوشحالی بد حالی آپ کی سوچ سے جُڑی ہوئی ہے۔ ماضی کے سارے اچھے برے تجربات۔ سارے سقوط۔ غلطیاں۔المیے آپ کے سامنے ہیں۔ یقیناً مستقبل کے سارے امکانات۔ خدشات بھی آپ کے پیش نظر ہوں گے۔ اس عظیم سر زمین کے قدرتی وسائل۔ معدنی ذخیرے بھی آپ کے علم میں ہوں گے۔
آپ وسائل سے مالا مال اس ملک اور60 فیصد سے زیادہ نوجوان آبادی والی مملکت کی قیادت کے دعویدار ہیں۔ آپ اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنا چاہتے ہیں۔ تو میں پوری نیک نیتی سے یہ تصور کرسکتا ہوں کہ آپ کے سامنے وسائل کا چارٹ بھی ہوگا۔ اور مسائل کا بھی۔ اور ان مسائل کی نبض پر انگلیاں رکھنے والے معالج اور ماہر بھی۔
آپ کیا میری باتیں غور سے سن رہے ہیں یا توجہ کہیں اور ہے۔
جب آپ اس ملک کو چلانے کے مشن پر ہیں تو یہ اعداد و شُمار آپ کے پاس ہونے چاہئیں۔ اور ایسے ماہرین بھی۔جو انسانی وسائل کی بہبود سے اچھی طرح آشنا ہوں۔ ایسے ماہرین نفسیات بھی جو ہر علاقے کے مزاج سے آشنا ہوں۔ آپ جہاں گیری اور جہانبانی کا راستہ اپنارہے ہیں تو یہ مہارت ناگزیر ہے۔ آپ سب سے مشکل اور سب سے اہم ذمہ داری خود اپنے سر لے رہے ہیں۔ یہ مملکت کے دوسرے ستونوں سے زیادہ تیاری اور صلاحیت کا تقاضا کرتی ہے۔ الیکشن جیت کر یہ صوبے یہ ملک آپ کے ہوجائیں گے۔ کیا آپ نے انہیں بہتر انداز سے چلانے۔ گزشتہ برسوں کی خرابیاں دور کرنے کی تیاریاں کی ہیں۔ آپ نے ترجیحات کا شیڈول بنایا ہے۔ طویل المیعاد بھی اور فوری بھی۔ کیا آپ نے تربیت یافتہ اور تجربہ کار ماہرین کی کوئی ٹیم تیار کی ہے۔
پاکستان نوجوان ملک ہے۔ 6کروڑ کے قریب نوجوان دست و بازو ہیں۔ سوچئے کتنی توانائی۔ کتنی طاقت ۔ یہ نوجوان اس وقت یونیورسٹیوں میں ہیں۔ کالجوں میں ہیں۔ سڑکوں پر ہیں۔ دینی مدارس میں ہیں۔ ان کو مرکزی دھارے میں لانے کے لئے آپ نے منصوبے بنائے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں لا تعداد مسائل ہیں۔ آپ کے پاس کوئی سابق وائس چانسلر ہیں جو یونیورسٹیوں کے مسائل حل کرنے کے لئے لائحہ عمل تیار کررہے ہیں۔
ایک ریاست کی ذمہ داری تعلیم ہے۔ صحت ہے۔ ٹرانسپورٹ ہے۔ پرائمری اسکولوں کے حالات کا جائزہ آپ نے لیا ہے۔ عام پاکستانیوں کو گھر سے نزدیک تر علاج معالجے کی سہولت کے لئے آپ نے کوئی منصوبہ قابل عمل والا بنایا ہے۔ کیا آپ کی جماعت میں پورے ملک کی مساوی نمائندگی ہے۔ یا الیکشن کے بعد علاقائی جماعتوں کے دروازوں پر کشکول لے کر حاضری دیتے پھریں گے۔
آپ نے کوئی خارجہ پالیسی مرتب کی ہے۔ بھارت سے تعلقات کے بارے میں سوچا ہے۔ چین اس وقت عالمی طاقت بن رہا ہے۔ روس پھر عالمی اُفق پر ابھررہا ہے۔ امریکہ ہمارا اتحادی ہے۔ لیکن سب سے بڑی مصیبت بھی۔ شمالی کوریا جنوبی کوریا نے جنگی جنون اور وقت کا فرق ختم کرکے تاریخ ساز قدم اٹھایا ہے۔ ملائیشیا پھر اپنے ہیرو 92سالہ مہاتیر کو وزیر اعظم کے طور پر لے آیا۔ کیا آپ نے عالم اسلام سے تعلقات کا کچھ نقشہ بنایا ہے۔ داخلہ پالیسی ترتیب دی ہے۔ پولیس کے اختیارات۔ حدود۔ بیورو کریسی کے معاملات۔ سرکاری ملازمین کی بہتری۔ تربیت۔ ان کے مفادات کا تحفظ۔ کوئی مذہبی پالیسی ہے آپ کی۔ فرقہ واریت۔ انتہا پسندی کیسے ختم کریں گے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے کیا منصوبے ہیں۔ غریب کے سفری وسیلے ریلوے کو ٹرانسپورٹ مافیا نے جس طرح زیر بار کیا ہے اس کی کوئی منصوبہ بندی ۔ سی پیک سے بالآخر ہم کیسے فائدے اٹھاسکتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اکیسویں صدی میں بھی پرانی صدیوں کے مناظر پیش کرتا ہے۔ خواتین کو انسان نہیں استعمال کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لئے کچھ سوچا ہے۔سب سے بڑھ کر پاکستان کے کاروباری حلقوں کی مایوسی دور کرنے کے لئے آپ کی اقتصادی پالیسی کیا ہوگی۔ تجارت کس پالیسی کے تحت ہوگی۔
میری کوئی بات بری لگی ہو تو معافی چاہتا ہوں۔ لیکن میرا خیال یہی ہے کہ میں نے مختصراً جو سوالات کیے ہیں ان کا جواب ضروری ہے۔ آپ قیادت کا حق اسی صورت میں ادا کرسکیں گے۔
میری گزارشات کا جواب لازمی دیجئے گا۔ نیچے دیئے گئے نمبر پر میں اسے اپنے کالم میں بھی شائع کروں گا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ