سب سے پہلے تو آپ سب کا شکریہ کہ عمران خان کی ماہرین سے مشاورت اور کچھ سیکھنے کی تجویز کی۔ ہم نوائی کی ۔
پاکستان کے عوام اب بے چین ہورہے ہیں کہ حکومت سازی میں اتنی تاخیر کیوں ہورہی ہے۔ یہ تو طے ہے کہ پاکستان کے غریب اور بے بس عوام کسی ایک شخصیت کو نجات دہندہ سمجھ کر ووٹ دیتے ہیں۔ اس لہر میں کھمبے بھی جیت جاتے ہیں۔ بعض ایسے افراد بھی پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں جنہیں کوئی کونسلر بھی منتخب نہ کرنا چاہے۔ یہ سب پارلیمانی نظام کی قباحتیں ہیں ۔حکومت بنانا مشکل پھر ٹیم بنانا اس سے بھی دُشوار۔
پارلیمانی نظام ان مہذّب ملکوں میں توقابل عمل ہوگیا ہے۔ جہاں عوام کے بنیادی مسائل حل ہوچکے ہیں۔ مقامی حکومتوں کا بہت ہی مستحکم سلسلہ ہے۔ حکمرانی کا ایک نظام ہے۔ احتساب کا بھی سخت معمول ہے۔ مگر یہ منزل انہیں صدیوں بعد حاصل ہوئی ہے۔ چرچ اور بادشاہت کی لڑائیاں ہوئیں۔ تحریک احیائے علوم چل چکی۔ حکومت کے پاس سیٹیں کم ہوں ۔ بجٹ منظور کرانے میں ناکام ہوجائے تو دوبارہ الیکشن ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ابھی سب کچھ اُدھورا ہے۔ مقامی حکومتیں بے اختیار ہیں۔تعلیم کی شرح بہت کم ہے۔ جاگیرداروں۔ سرداروں۔ زمینداروں کا غلبہ ہے۔ شہروں میں مافیاؤں نے کنٹرول سنبھالا ہوا ہے۔ اس لئے پارلیمنٹ یرغمال بن جاتی ہے۔ چند ایم این اے اِدھراُدھر ہوجائیں تو حکومت ڈولنے لگتی ہے۔صدارتی نظام میں آپ جس قابل۔ ذہین اور تجربہ کار شخص کو وزارت سونپنا چاہیں۔ دے سکتے ہیں۔ ایم این اے ہونا شرط نہیں ہوتا۔
ایسے غریب اور کم تعلیم والے ملکوں میں صدارتی نظام بہتر رہتا ہے۔ مسلم ملکوں میں ملائشیا۔ اور ترکی میں کسی قدر جمہوریت ہے اور ترقی بھی ہورہی ہے۔ وہاں پابندیاں ہیں۔ میڈیا آزاد نہیں ہے ۔ ترکی میں اردوان کو وزیر اعظم سے پھر صدارت کی طرف جانا پڑا۔ چین میں بھی پارلیمانی نظام نہیں چل رہا۔ دیکھیں کس قدر ترقی کررہا ہے۔ اس پہلو پر ہمیں غور کرنا چاہئے۔ اب محض گنتی پوری کرنے کے لئے کتنے دن ضائع ہورہے ہیں۔ عمران خان حکومت بنانے میں کامیاب تو ہوجائیں گے۔ پہلے ظفر اللہ جمالی بھی ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیر اعظم بن سکے تھے۔ مگر اس کے لئے مشرف صاحب کو نیب زدہ ارکان پر مبنی پیٹریاٹ بنانا پڑی تھی۔
پارلیمانی نظام کی ہیئت آپ کو اپنے نظریات قربان کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ بہت سے نظریاتی مخالفین کو گلے لگانا پڑتا ہے۔ اصول تڑپ رہے ہوتے ہیں۔ سچائیاں زخم زخم ہوجاتی ہیں۔’’ کہیں کا اینٹ کہیں کا روڑا۔ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘ کے مصداق ٹیم بنتی ہے۔ جو کبھی ہم آہنگ نہیں ہوتی۔
دوسری طرف عوام اس تشویش میں بھی مبتلا ہیں کہ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والی۔ ایک دوسرے کی جان کے در پے۔ سڑکوں پر گھسیٹنے کے عزائم رکھنے والی پارٹیاں کیسے متحد ہورہی ہیں۔
ہے یوں تو میرے رقیبوں میں اختلاف بہت
مرے خلاف مگر اتحاد کتنا ہے
مرتضیٰ برلاس صاحب کا یہ شعر شکیل جاذب نے فیس بک پر پوسٹ کیا ہے۔ ماضی میں ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ 1977میں بھی بھٹو صاحب کے خلاف یہ سب پارٹیاں اسی طرح جمع ہوئی تھیں۔ بھٹو صاحب کا دوسرا دَور حکومت شروع ہونا تھا۔ان کے پاس دو تہائی اکثریت بھی تھی۔ لیکن وہ ناکام رہے۔ اس وقت تو نادیدہ قوتیں اپوزیشن کے ساتھ تھیں۔ اب تو الزام یہی ہے کہ خلائی مخلوق عمران خان کو لے کر آئی ہے۔ عام طور پر اتحاد اس مخلوق کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یا پھر ڈالر۔ درہم۔ جنوبی ایشیائی روپیہ اس کا محرّک بنتا ہے کیونکہ نظریات میں تو کوئی فرق نہیں ہے۔ عمران خان نہ اسلامی نظام لارہے ہیں نہ سوشلزم۔ یہ پارٹیاں بھی اسلامی نظام لانا چاہتی ہیں نہ سوشلزم۔ خارجہ پالیسی پر بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔ فرق ہے تو صرف سرکاری خزانے میں لوٹ مار کا ۔ اپنے منظور نظر افراد۔ رشتے دار۔ دامادوں۔ سمدھیوں ۔ بھائیوں کو گورنری۔ وزارتیں۔ کارپوریشنوں کی سربراہی دلوانے کا۔
اس صورتِ حال میں عمران خان پر جلد از جلد کچھ بڑے کام کرنے کا دباؤبڑھ جائے گا۔ جن سے عوام کو فوری راحت مل سکے۔ مہنگائی کم ہوسکے۔ روزگار کے مواقع فراہم ہوسکیں۔ ایک طرف ان کی ٹیم بھی ہم آہنگ نہیں ہوگی۔بیورو کریسی بھی پوری طرح ساتھ نہیں دے گی۔ دوسری طرف اپوزیشن بھی مضبوط اور جارح ہوگی ۔ عمران خان کو یہ ترجیح تو حاصل ہے کہ اب پی ٹی آئی چاروں صوبوں میں موجود ہے۔ اس مثبت ترجیح سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ عمران خان کو ذاتی قربانیاں بھی دینا ہوں گی۔ بنی گالہ کی رہائش گاہ میں بھی کوئی یونیورسٹی بنادیں۔ خود کسی چھوٹے بنگلے میں منتقل ہوں۔ وزیر اعظم کا خصوصی طیارہ استعمال نہ کریں۔ عام کمرشل فلائٹس سے سفر کریں۔ وزراء بھی اکانومی سے سفر کریں۔ وزیرا عظم اور وزراء کے لاؤ لشکر محدود کریں۔ کلرکوں مزدوروں چپراسیوں کی تنخواہوں میں اضافہ کریں۔ ایک تولہ سونے کی قیمت کے برابر۔ تب ہی وہ کچھ آبرومندانہ زندگی گزار سکتے ہیں۔
ایک قانون اگر نافذ کردیں تو بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے کہ تمام وزراء ۔ سیکرٹریوں اور دوسرے افسروں کی اولاد سرکاری اسکولوں۔ کالجوں یونیورسٹیوں میں پڑھے گی۔ اس سے سرکاری اسکولوں کی کارکردگی بہتر ہوگی۔ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی عزت میں اضافہ ہوگا۔تعلیم سب سے زیادہ توجہ چاہتی ہے۔ دوسرے عام شہریوں کے لئے اچھی آرام دہ پبلک ٹرانسپورٹ کا انتظام پہلے دو تین ماہ میں ہی بڑی بسیں لاہور ۔ کراچی۔ ملتان۔ پشاور۔ اسلام آباد۔ حیدر آباد۔ کوئٹہ۔ سیالکوٹ اور دوسرے شہروں میں اُتاردیں۔ ٹرانسپورٹ مافیا کی اجارہ داری ختم کریں۔
وقت کم ہے۔ کام بہت ہیں۔ آپ نوجوان لگتے ہیں ماشاء اللہ۔ لیکن گزشتہ چار دہائیوں میں اس تخت پر بیٹھنے والے آپ کی نسبت کم عمر میں مسند نشین ہوئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو 43سال۔ جنرل ضیا53۔ محمد خان جونیجو 53۔ بے نظیر بھٹو 35۔ نواز شریف41۔ جمالی58۔ اور آپ کو یہ مسند 65سال کی عمر میں مل رہی ہے۔ آپ کے ہم عصر حکمران بھارت میں مودی 68سالہ ہیں۔افغانستان میں اشرف غنی 69سالہ۔ چین میں شی 65سالہ۔ اس خطّے میں دوسرے حکمران آپ کے ہم عمر ہی ہیں۔ اس لئے ان سے معاملہ فہمی میں آپ کو مشکلات نہیں ہوں گی۔
مجھے 21اپریل 1972یاد آرہی ہے۔ عبوری آئین منظور ہوگیا تھا۔ صدر بھٹو نے پنڈی کے ریس کورس گراؤنڈ میں 3لاکھ پاکستانیوں کے سامنے حلف اٹھایا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس حمود الرحمان نے حلف لیا تھا۔ اس سے عوام میں ایک نیا جوش ولولہ پیدا ہوا تھا۔
اب سن رہے ہیں کہ بڑے بڑے اداکار۔ کھلاڑی حلف برداری میں آئیں گے۔ مگر یہ سب مردوں تک کیوں محدود ہے۔میری سفارش ہوگی کہ کترینہ کیف کو بھی بلائیں۔ ثانیہ مرزا ۔ ارون دھتی رائے اور کسی کشمیری لیڈر کو بھی۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ