بابائے اُردو مولوی عبدالحق۔ ابراہیم جلیس۔ شوکت صدیقی ۔ رئیس امروہوی۔ سید محمد تقی۔ حامد عزیز مدنی۔ جمیل الدین عالی۔ محشر بدایونی۔ محسن بھوپالی۔ فاطمہ ثریا بجیا۔ ماہر القادری۔ میر خلیل الرحمٰن۔ احمد جمیل مرزا کے شہر میں ان دنوں دیس دیس سے نگر نگر سے آئے ہوئے اُردو کے عشاق کو خوش آمدید۔ پاکستان آرٹس کونسل کی عالمی اُردو کانفرنس ہر سال بڑی شان سے سجتی ہے۔ سال بھر محنت کی جاتی ہے۔ سال بھر اس کے تذکرے رہتے ہیں۔ کراچی کے گوشے گوشے سے علم و ادب کے پروانے ان شمعوں پر نثار ہونے۔ ان کی ایک جھلک دیکھنے ۔ ان کے ساتھ سیلفی بنانے کے لیے امڈے چلے آتے ہیں۔ گفتگو ہوتی ہے۔ مقالات پڑھے جاتے ہیں۔ ہوٹلوں کے سبزہ زاروں پر لٹریری فیسٹیول لگتے ہیں۔ بڑے شہروں کے ساتھ چھوٹے شہروں میں بھی یہ حسین روایات داخل ہورہی ہیں۔
میں جس نسل سے تعلق رکھتا ہوں اس کا بچپن پروفیسر وقار عظیم۔ ابوللیث صدیقی۔ مقبول بیگ بدخشانی اور صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے مرتبہ اُردو کے قاعدے۔ پہلی دوسری کتابوں کے جلو میں گزرا۔ لڑکپن کرشن چندر۔ احمد ندیم قاسمی کی کہانیوں سے پروان چڑھا۔ مسَیں فیض۔ ساحر لدھیانوی۔ مجروح سلطان پوری۔ احسان دانش کے اشعار سے بھیگیں۔ ترقی پسند تحریک اور ارباب ذوق کی کشاکش سے جوانی کو جَلا ملی۔ ادب برائے ادب۔ ادب برائے زندگی کے مباحثوں سے خرد افروزی ہوئی۔ اسلامی ادب کے شگوفے بھی پھوٹتے دیکھے۔ بک اسٹالوں پر ادب لطیف۔ نقوش۔ نقش۔ ادبی دنیا۔ سیپ ۔سویرا۔ نیا دَور۔ نگار ہاتھوں ہاتھ بکتے دیکھے۔ ان دنوں یہ رنگا رنگ ۔ لٹریری فیسٹیول۔ پر تعیش اُردو کانفرنسیں نہیں ہوتی تھیں۔ لیکن گھر گھر ادبی رسالے۔ اُردو ناول۔ شعری مجموعے ہوتے تھے۔ معاشرے کے ستون۔ مینار۔ عبدالحمید عدم۔ نسیم حجازی ۔ ایم اسلم ۔ ابن صفی۔ راشد الخیری۔ قرۃ العین حیدر۔ عصمت چغتائی۔ ہاجرہ مسرور ہوتی تھیں۔ ادبی تحریکیں نوجوانوں کے ذہن بناتی تھیں۔ ادبی مباحثے نئی نسل کو روسی۔ ہندی۔ مغربی اور اپنا ادب پڑھنے پر آمادہ کرتے تھے ۔ فکر و فلسفے کے پیکر اہل قلم کی تحریریں بلوچی۔ سندھی۔ پنجابی۔ پشتو۔ کشمیری ادب کی حویلیوں میں جھانکنے کی دعوت دیتی تھیں۔ جیلوں سے کبھی ــ’’زندان نامہ‘‘ آتی تھی۔ کبھی کال کوٹھڑی۔ کبھی سر مقتل۔ یونیورسٹیوں ۔ کالجوں میں عشق انہی حوالوں سے ہوتے تھے۔ درسگاہوں کے اپنے مجلّے بھی انتہائی معیاری ادب پیش کرتے تھے۔ ادب معاشرے کی تہذیب اور تزئین میں بنیادی مقام رکھتا تھا۔ کہانیوں اور نظموں کے خالق نوجوانوں کے ذہنوں کی ساخت کرتے تھے۔ ادبی رسائل ان تحریکوں کو آگے لے کر گھر گھر پہنچاتے تھے۔
اب اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی کانفرنسیں۔ لٹریری فیسٹیولز کیا معاشرے پر اپنا کوئی نقش ثبت کررہے ہیں۔ کیاان سے نوجوانوں کی ذہنی ساخت پر کوئی اثر پڑ رہا ہے۔ کیا ادبی میلوں اور کانفرنسوں سے ادبی رسائل کی اشاعت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان اجتماعات کے شرکا ۔ ادبی رسالے خرید کر پڑھتے ہیں۔ کیا ہر سال ہونے والی ان کانفرنسوں کے نتیجے میں کوئی ادبی تحریک جنم لیتی ہے۔ جدید ترین اطلاعاتی اور ٹیکنالوجی کے ذریعے تیز رفتار مواصلات خرد افروزی کو تقویت دے رہے ہیں۔
اتنی تعداد میں جہاں لکھنے والے اور پڑھنے والے یکجا ہوتے ہیں تو کیا کوئی پیغام ایک دوسرے کو دیا جاتا ہے۔ ہر کانفرنس کا ایک مقصد۔ ایک تھیم۔ ایک نصب العین ہوتا ہے۔ جو برسوں تک معاشرے کو متحرک اور فعال رکھتا ہے۔ زندہ رہنے کا ڈھب سکھاتا ہے۔ نیک و بد میں تمیز سمجھاتا ہے۔ زندگی گزارنے کے قرینے بتاتا ہے۔ ایسی محفلوں سے ہی متنوع تمدّن جنم لیتے رہے ہیں۔ تہذیبیں پروان چڑھتی رہی ہیں۔ نئی عمرانی دستاویزات کی صورت گری ایسے اجتماعات سے ہی ہوتی ہے۔
پاکستان جیسی بحرانوں میں گھر ی جغرافیائی وحدت کو تو ادب اور حکمت سے آبیاری کی بہت ضرورت ہے۔ جہاں الگ الگ ثقافتیں۔ جدا جدا قومیتیں۔ مختلف زمینی منظر نامے ہیں۔ میدانوں میں پلتی نگاہیں۔ پہاڑوں میں پرورش پاتے ذہن۔ دریا کنارے پروان چڑھتے عشق۔ ریگ زاروں میں ریت کی چمک سے چندھیاتی آنکھیں۔ تنگ وادیوں کی گھٹن میں جکڑے ضمیر۔ ان سب کے خواب مختلف ہیں۔ سوچیں منفرد ہیں۔ ان کانفرنسوں ۔ ادبی میلوں میں کیا سارا وان۔ مکران کے نوجوانوں کو اپنے خواب سنانے کی دعوت دی جاتی ہے۔ بلوچستان اور سندھ میں لا پتہ ہونے والے گبھرئوں کے گھروں میں جو اداسی بال کھولے سورہی ہے کیا ملٹی میڈیا سے اس کی Presentation ہوتی ہے۔ پنجاب۔ سندھ۔ کے پی ۔ بلوچستان۔ گلگت/بلتستان۔ فاٹا۔ آزاد کشمیر میں جو گیت سینہ بہ سینہ چل رہے ہیں کیا وہ یہاں سنائے جاتے ہیں۔ جنرل ضیا کے دَور استبداد نے ہمارے ذہنوں کی ساخت سب سے زیادہ متاثر کی ہے۔ اب بھی اس جبر کی وراثت نسل در نسل منتقل ہورہی ہے۔معاشرہ تاریک صدیوں کی طرف رجعت کررہا ہے۔ اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی سے چکا چوند دنیا میں پاکستان اندھیروں کا جزیرہ بنا ہوا ہے۔ اب بھی عورت کو خرید و فروخت کی چیز گردانا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود حضرات کے شملے۔ پگڑیاں اور فرمودات بتاتے ہیں کہ انہیں جاتی صدیاں ساتھ لے جانا بھول گئی ہیں۔ وحشتیں سارے شہروں میں دھرنے دے کر زندگی کا سفر روک دیتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد دنیا بدل گئی ہے۔ افغانستان میں انسانیت پامال ہورہی ہے۔ دنیا کی واحد سپر پاور سب سے ترقی یافتہ قوم افغانستان کو مسلسل غلامی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ افغانستان کے افسانے۔ شاعری کیا ان کانفرنسوں میں موضوع سخن بنتی ہے۔ شام۔ عراق۔ لیبیا۔ الجزائرو مصر میں انسان پر کیا گزر رہی ہے۔ وہاں کس قسم کا ادب تخلیق ہورہا ہے۔ کیا اس ادب کا اُردو ادب پر کوئی عکس پڑتا ہے۔ کشمیر میں 71برس سے انسانی جسم۔ روح۔ ذہن۔ آتش و آہن کے ظالمانہ کھیل سے جس طرح جھلسے جارہے ہیں کیا یہ اُردو اہل قلم کے ذہن میں کوئی چنگاری بھڑکاتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ آج کل شو بزنس کا دور ہے۔ صحافت بھی شو بزنس ہے۔ سیاست بھی تو کیا حرف و دانش کو بھی ایک تماشا بن جانا چاہئے۔ لکھنے والے اداکار، گلوکار بن جائیں۔ پڑھنے والے محض تماشائی۔ جب تماشا ختم ہو تو ذہنوں پر کچھ بھی ثبت نہ ہو۔
بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ معزز ادیبوں۔ نقادوں۔ ناول نگاروں سے رابطے ان کے سفر۔ ان کی رہائش کے انتظامات ۔ سامعین اور شرکا کی بڑی تعداد میں میزبانی۔ نوجوان بہت خوش ہوتے ہیں کہ وہ جن کو پڑھتے ہیں ان کو قریب سے دیکھتے ہیں۔ ان سے معانقے کرتے ہیں۔ سیلفی بناتے ہیں ۔ فیس بک پر ڈال دیتے ہیں جب ان نامور ہستیوں میں سے کوئی دنیا چھوڑ جائے تو یہ تصویریں پوسٹ کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ لیکن میں اپنے آپ سے بھی سوال کرتا ہوں کہ کیا سیلفی کے ذریعے کوئی فکر۔ کوئی حکمت بھی منتقل ہوتی ہے ۔ کیا ان کانفرنسوں میں کہیں کوئی ایسی محفل بھی برپا ہوتی ہے جہاں نوجوانوں کے ذہنوں میں تڑپتے سوالات کے جواب دئیے جاتے ہوں۔ ان کو بتایا جاتا ہو کہ افسانہ کیسے لکھا جاتا ہے۔ ناول لکھنے کا طریقہ کیا ہے۔ شعر کیسے اترتا ہے۔ پاکستانی ایک قوم کیسے بن سکتے ہیں۔ یہ پاکستان کی سر زمین 1947سے ایک وحدت نہیں بنی۔ صدیوں سے یہ وادیٔ سندھ کی شکل میں موجود رہی ہے۔
ایک بار پھر جیّد اہل قلم کو خوش آمدید۔ اور کسی ایک پیغام جاوداں کی التجا۔
تیرا امام بے حضور، تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ