فیس بک(کتابِ رخ) مسکراہٹیں بھی بکھیرتی ہے، غم زدہ بھی کرتی ہے۔ آج صبح صبح کینیڈا سے پوسٹ کی گئی ایک تصویر سے میری آنکھیں بھر آئی ہیں۔ ایک ریاستی ادارے کے ریٹائرڈ آفیسرز کسی ایک ریٹائرڈ فردکے گھر پر جمع ہیں۔ اسے Reunionکہا گیا ہے۔ یہ وہ اعلیٰ افسر ہیں جو اپنی سروس کے دوران وطن پر جان نثار کرنے کو اپنا فرض جانتے ہیں، ان کے رفقا میں سے بہت سے اپنی زندگی اس عظیم وطن پر وار بھی گئے ہوں گے لیکن اس تصویر میں موجود اعلیٰ افسر ترکِ وطن پر کیوں آمادہ ہوئے؟
میری آنکھوں میں آنسو ہیں۔ بہت کچھ سوچ رہا ہوں۔ بہت سے پی این ایس یاد آرہے ہیں۔ غازی کی کہانی ذہن میں تڑپ رہی ہے۔ دوارکا معرکہ، بہت سے ملّی ترانے، پھر فیس بک پر ہی پوچھے گئے سوالات، جن کی تصدیق بھی ہوئی۔ ہمارے اعلیٰ غیر سویلین افسران اور حساس اداروں کے سربراہان ریٹائر ہونے کے بعد امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا میں عمر کے آخری برس گزارنے کیوں چلے جاتے ہیں۔ ہمارے سابق سفیر، ماہرین، سائنسدان، انجینئرز، اپنے اس محبوب وطن کی سکونت ترک کرکے دوسرے ملکوں میں کیوں جا بستے ہیں؟ ان کے طویل تجربات، مشاہدات، محسوسات۔ صلاحیتیں اس وطن کے کام کیوں نہیں آتیں؟ دوسرے معاشرے ان سے کیوں فائدہ اٹھاتے ہیں؟
کوئی مجبوری ہے یا لالچ۔ یہاں کیوں نہیں رہنا چاہتے۔ جس وطن کی تعمیر میں انہوں نے اپنی جوانی کے چمکتے دن وقف کیے، جس کے استحکام کیلئے انہوں نے رت جگے کیے، مسافتیں کیں، معرکے سر کیے، ریٹائرمنٹ پر ملنے والی کثیر رقوم پر اس وطن کا حق تھا یا نئے وطن کا۔ یہ سرمایہ یہاں لگتا تو اس ملک کو اقتصادی تقویت ملتی۔ کسی تحقیقی ادارے، کسی خفیہ ایجنسی، کسی یونیورسٹی نے یہ تحقیق کی کہ ترکِ وطن کا یہ سلسلہ کب سے شروع ہوا۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد یا 1965ءکی جنگ کے بعد یا ضیاءالحق کے مارشل لا کے بعد۔ ملک میں عدم تحفظ کا احساس تو ہے لیکن کیا ہمارا فرض یہ نہیں ہے کہ ہم سب متحد ہوکر اس کو محفوظ بنانے کی جدوجہد کریں۔ ہم سب یہاں 72سال میں اپنے شہروں کو پ±رامن کیوں نہیں بنا سکے۔ ایسا نظام کیوں قائم نہیں کر سکے کہ ریٹائر ہونے والے فوجی، سویلین، پروفیسرز، انجینئرز عمر کا آخری حصہ یہیں آرام سے گزار لیتے۔
ہماری اکثریت تو انہی ناانصافیوں، خطرناک لاقانونیت، مافیاﺅں کی سفاکی، چند خاندانوں کی بالادستی میں اپنا بچپن، جوانی اور بزرگی بسر کرتی ہے۔ ان میں سے اکثر کے پاس تو گاﺅں سے نزدیکی شہر جانے کی استطاعت نہیں ہے۔ ایسے گھرانے بھی ہیں کہ ان کے نوجوانوں کے پاس صلاحیت ہے، توانائی ہے، لیکن انہیں سماج کی زنجیریں، جاگیردار، سردار کی حد بندیاں اپنا گھر چھوڑنے نہیں دیتیں۔ اس طبقاتی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے بھی ہم نے امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں آسودہ زندگی گزارتے دیکھے۔ وہ اپنا نصب العین حاصل کیے بغیر، اپنی جدوجہد درمیان میں کیوں چھوڑ کر چلے گئے۔
کسی حکومت نے ذہانت، دانش، صلاحیت کے انخلا سے ملک کو ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگایا اور یہ سوچا کہ جب بھی کوئی پاکستانی ترکِ وطن کرتا ہے تو اس محلّے، گاﺅں اور شہر میں اپنے وطن کے بارے میں کتنی مایوسی پھیلتی ہے۔ خاص طور پر جب غیر سویلین اداروں سے تعلق رکھنے والا ترکِ وطن کرتا ہے۔ قوم اور ریاست نے اپنا پیٹ کاٹ کر ان کیلئے سہولتیں فراہم کی ہیں۔ ان کے عزائم اور ان کے اقرار ان کا راستہ نہیں روکتے؟
ہم نے جب وادی غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو
آئی ایس پی آر کے تیار کردہ نغمے بھی ان کو اسی وطن میں رہنے کیلئے قائل نہیں کرتے۔ ان کی رہائشی بستیاں تو محفوظ بھی ہیں اور معیاری بھی۔ اہلِ وطن اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنے سفارت خانوں کے بھاری خرچے برداشت کرتے ہیں۔ سفیروں اور ان کے عملے کو کون سی سہولت فراہم نہیں کی جاتی۔ بہت سے امیر ملکوں کے سفارت خانے بھی اتنا بلند معیارِ زندگی نہیں رکھتے جو پاکستانی مشنوں میں ہوتا ہے۔ ان سفارت کاروں میں سے اکثر اسی ملک کی شہریت حاصل کرنے کے جتن کر رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے سابق سفیر بھی غیر ممالک میں خیمہ زن ہیں۔ وہیں بیٹھ کر وہ ہم خاک نشینوں کو مسائل کا حل بتا رہے ہوتے ہیں۔ اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دینے والے کبھی سوچتے ہیں کہ نوجوان جب ایسے ایسے فاضل حضرات کو ترکِ وطن کرتے دیکھتے ہیں تو وہ بھی مسئلے کا حل پھر یہی سمجھتے ہیں۔ یہاں ناانصافیوں اور ناہمواریوں کے چیلنج قبول کرنے کے بجائے سفارت خانوں کے باہر ویزے کی قطار میں لگ جاتے ہیں۔
دوسرے ملکوں سے بھی ذہانت کا فرار ہو رہا ہے لیکن وہ باہر بیٹھ کر بھی اپنے ملک کے استحکام اور ترقی میں اپنا حصّہ ڈالتے ہیں۔ ہمارے دشمن ہمسایے کے تارکینِ وطن کو این آر آئی کہا جاتا ہے۔ Non Resident Indians (غیر مقیم بھارتی) یہ ملک سے باہر آپس میں لڑتے نہیں ہیں۔ اپنے ملک کی برائی نہیں کرتے حالانکہ ان کے ہاں بھی اکثریت مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ کئی کروڑ انسان غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ پاکستان میں اکثریت کی زندگی کا معیار بھارت کی اکثریت سے بہتر ہے مگر ہمارے سمندر پار پاکستانی آپس میں بر سر پیکار رہتے ہیں۔ اپنے وطن کی بدحالی ناانصافی کو وہاں اچھالتے ہیں۔ اپنے مسلک، فرقوں، لسانی عصبیتوں، نسلی تعصبات اور سیاسی وابستگی کو وہاں بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ وہاں زندگی کی جو آسانیاں دیکھتے ہیں وہ اپنے ملک میں نہیں لاتے۔ اپنے اہل خانہ، دوستوں اور احباب کو نہیں بتاتے کہ یہ پ±رامن، محفوظ شہر انسانوں نے ہی بسائے ہیں۔ یہاں کوئی فرشتے نہیں اترے تھے۔
کیا یہ ذہانت کا فرار ر±ک نہیں سکتا؟ کیا ہم اپنے شہروں کو امن کا گہوارہ نہیں بنا سکتے؟ ہم قانون کا نفاذ یکساں نہیں کر سکتے؟ شہریوں کے جو حقوق ہیں، ان کو جو آسانیاں ملنی چاہئیں کیا وہ انہیں سفارش کے بغیر نہیں مل سکتیں؟ آئیے! سب مل جل کر پاکستان میں ایسا ماحول پیدا کریں کہ لوگ وطن سے جانے کے بجائے واپس آنے کا سوچیں۔ ہمارا سرمایہ یہیں خرچ ہو۔ ہماری صلاحیتیں، مہارتیں اپنے وطن کو خوب سے خوب تر کرنے میں صَرف ہوں۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ