ڈاکٹر ناصر عباس نیئر عہد حاضر کے ممتاز نقاد اور افسانہ نگار ہیں وہ اردو میں نو آبادیاتی مطالعات کے بنیاد گزار ہیں نئیر صاحب نے اردو ادب کے نوآبادیاتی عہد کا مطالعہ سیاسی، سماجی معاشی اور تاریخی سطح پر کیا ہے لیکن یہاں ہم ان کی شخصیت کے دوسرے بڑے رخ بطور فکشن نگار پر بات کرتے ہیں۔
ڈاکٹر نیئر صاحب کے اب تک چار افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔
خاک کی مہک 2016
فرشتہ نہیں آیا 2017
راکھ سے لکھی گئے کتاب2018
ایک زمانہ ختم ہوا ہے 2020
ان کا پہلا افسانوی مجموعہ "خاک کی مہک ” میں سے یہ اقتباس دیکھئے۔ اس افسانے میں ڈاکٹر نیئر ذہن کی آزادی کو ہی جنت سے تشبیہ دیتے ہیں اور نئی دریافتوں کی وجہ سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں "میرے لیے جنت ذہن کو کسی بھی طرف جانے کی آزادی ہے۔یہ ظالم اگر آزاد ہو جائے تو وہاں وہاں جاتا ہے جہاں کے بارے میں اب تک لکھی گئی سب کتابیں اور سنے ہوئے سب قصے چپ ہیں ۔میں تو یہی سمجھا ہوں کہ میں جب بھی اسے خوف کے بغیر کہیں بھی جانے دیتا ہوں یہ کچھ نہ کچھ نیا دریافت کرکے لاتا ہے ”
ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ "فرشتہ نہیں آیا ” چھ افسانوں اور گیارہ حکایات پر مشتمل ہے اس مجموعہ کے نمایاں افسانوں میں "ابا کا صندوق” اپنی تہذیب سے جڑت کا اظہاریہ ہے "ہوسکتا ہے یہ آپ کے نام لکھا گیا ہو "جنسی بھوک ،اور اس مجموعہ کا نمائندہ افسانہ”فرشتہ نہیں آیا "معاشرتی جبر کو بیان کرتا ہے افسانہ "لوگو فوبیا ” مابعد جدید تناظر اور "کنویں سے کٹورے تک ” انتظار حسین کے اسلوب میں لکھا گیا جو ان خراج تحیسن پیش کرتا ہے نئیر صاحب کی اس کتاب کا انتساب "انتظار حسین کے نام ” کیا گیا ہے۔
تیسرا افسانوی مجموعہ "راکھ سے لکھی گئ کتاب دنیا کی سب ماؤں کے نام معنون ہے ماں محبت ،شفقت اور یگانگت کا استعارہ ہے اور اس کتاب کے افسانوں میں یہ محبت اور جڑت نظرت آتی ہے اس کتاب میں کل چودہ افسانے ہیں نمایاں افسانوں میں "درخت باتیں نہیں کرتے ، عورت کو زیادہ محبت کس سے ہے ،پرانا اور نیا انصاف” اور اس مجموعہ کا نمائندہ افسانہ "راکھ سے لکھی گئی کتاب ” ہے
فیس بک کمینٹ