Close Menu
  • مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • عالمی خبریں
    • تجزیے
  • English Section
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • گوجرانوالا
      • سیالکوٹ
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
Facebook X (Twitter)
پیر, جون 23, 2025
  • پالیسی
  • رابطہ
Facebook X (Twitter) YouTube
GirdopeshGirdopesh
تازہ خبریں:
  • ڈاکٹر صغرا صدف کا کالم : پنجاب کی وحدت پر حملہ آور آکاس بیل سوچ
  • بالآخر صدر ٹرمپ جنگ میں کْود پڑا : نصرت جاوید کا تجزیہ
  • اسرائیل کی ہزیمت : حامد میر کا تجزیہ
  • ایران پر امریکی حملہ: دنیا میں لاقانونیت کا راج : سید مجاہد علی کا تجزیہ
  • ایران کا ایٹمی پروگرام تباہ کردیا گیا ، امریکی وزیردفاع کا اعلان
  • ویمن یونیورسٹی ملتان کی وائس چانسلر ، شریعہ اکیڈمی کی سابق ڈی جی ڈاکٹر فرخندہ ضیاء انتقال کر گئیں
  • کوئٹہ میں پیٹرول کی قلت : اوگرا نے ملک بھر کے لیے وارننگ جاری کر دی
  • شاہد راحیل خان اور کہانی پاکستان کی : محمد عمران کا کتاب کالم
  • سید مجاہدعلی کا تجزیہ : ٹرمپ کو نوبل امن انعام دینے کی تجویز
  • عطاءالحق قاسمی کا کالم : لعنتی
  • مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • عالمی خبریں
    • تجزیے
  • English Section
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • گوجرانوالا
      • سیالکوٹ
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
GirdopeshGirdopesh
You are at:Home»کالم»وسعت اللہ خان کا کالم : پاؤں سے نکلتی زرخیز زمین اور آموں کی قربان گاہ ملتان
کالم

وسعت اللہ خان کا کالم : پاؤں سے نکلتی زرخیز زمین اور آموں کی قربان گاہ ملتان

رضی الدین رضیمارچ 27, 20210 Views
Facebook Twitter WhatsApp Email
mango
Share
Facebook Twitter WhatsApp Email

پاکستان میں تحفظ ماحولیات کی وزارت نوے کے عشرے میں بے نظیر بھٹو کی دوسری وزارت عظمی میں قائم ہوئی۔ یہ قلمدان اتنا حساس سمجھا گیا کہ آصف علی زرداری کے سپرد کیا گیا۔ جنوبی ایشیا کے کسی بھی ملک میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی وزارت تھی۔
پاکستان پچھلے کم از کم دو عشروں سے ان دس ممالک کی سرخ فہرست میں شامل ہے جو دو ہزار پچاس تک ماحولیات کے منفی اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔پاکستان سن دو ہزار تیس تک عالمی درجہ حرارت میں کمی کے اقدامات میں حصہ داری اور اپنی نصف آبادی کی انسانی ترقی کو بنیادی سطح سے اوپر لے جانے کے ہدف پر بھی کاربند ہے۔ یہ بھی خوش آیند ہے کہ موجودہ سرکار بلین ٹری سونامی کے منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے محدود وسائل میں جتنی کارکردگی دکھا سکتی ہے دکھا رہی ہے۔ پاکستان کی کم ازکم چالیس فیصد آبادی پر منڈلاتے ناکافی غدائیت یا بھک مری کے خطرے پر نگاہ رکھنے کے لیے فوڈ سیکیورٹی کی ایک علیحدہ وزارت بھی کام کر رہی ہے۔ مگر مذکورہ تمام اقدامات کا زور بالٹی میں وسائل کا پانی ڈالنے پر ہے لیکن رستے ہوئے پیندے کو درست کرنے پر کوئی توجہ نہیں۔ چلیے دانشوری جھٹک کے صاف صاف بات کی جائے۔
پاکستان کا رقبہ ایک سو ستانوے ملین ایکڑ ہے۔ آبادی لگ بھگ بائیس کروڑ ہے۔ آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح ڈھائی سے تین فیصد کے درمیان ہے۔ جب کہ معیشت کے حجم میں اضافے کی اوسط شرح گزشتہ دو برس اور کوویڈ کی وبا جوڑنے کے نتیجے میں شرح آبادی میں اضافے سے بھی کم ہے۔ یعنی معیشت بڑھنے کے بجائے سکڑ رہی ہے۔ آمدنی اخراجات کے مقابلے میں پہلے ہی کم تھی اب یہ فرق اور بڑھ رہا ہے۔
اس پر مستزاد اقوام متحدہ کے متعلقہ ذیلی اداروں کے یہ آنکڑے ہیں کہ اگر حالات یہی رہے تو دو ہزار تیس تک پاکستان کی آبادی نہ صرف بائیس کروڑ سے بڑھ کر پچیس کروڑ تک پہنچ جائے گی بلکہ دیہی علاقوں میں روزگار کے مسلسل سکڑتے مواقعے کے سبب شہروں کی جانب ماحولیات اور زرعی زبوں حالی سے جوج رہے افراد کی نقل مکانی کے نتیجے میں شہری آبادی کا موجودہ تناسب چھتیس فیصد سے بڑھ کر پچاس فیصد سے بھی اوپر نکل جائے گا۔
مگر کہانی بس یہاں تک ہی محدود نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے نتیجے میں ممکنہ منفی سماجی و سیاسی و اقتصادی تبدیلیوں کا رخ بدلنے کی دو ہی تراکیب ہیں۔ یا آبادی میں اضافہ قابو میں لایا جائے یا خوراک اتنی میسر ہو کہ بڑھتی ہوئی آبادی کا کم ازکم پیٹ ہی بھر جائے اور وہ توڑ پھوڑ یا نظام سے بغاوت کے بارے میں سوچنے سے فی الحال باز رہے۔مگر یہ امکان بھی کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ زرعی زمین اور پیداوار کا حجم بڑھنے کے بجائے گھٹ رہا ہے۔ اور آبادی کا دباؤ پہلے سے میسر زرعی زمین کو بھی رفتہ رفتہ کتر رہا ہے۔ یعنی ہم بڑھتی ہوئی آبادی کے ہمراہ بھک مری و مفلوک الحالی کی شاہراہ پر آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر آگے بڑھ رہے ہیں اور اس سفر لاحاصل کو روکنے کا بھی کوئی قلیل یا طویل المدت اہتمام نظر نہیں آ رہا۔
ہم جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسے کس طرح کاٹ رہے ہیں؟ دو ہزار سولہ کی ایک رپورٹ کے مطابق انیس سو پچھتر تا دو ہزار پندرہ کے درمیانی چالیس برس کے دوران صرف ضلع لاہور میں تقریباً تین لاکھ ایکڑ زرخیز زمین ڈھائی سو سرکاری و غیر سرکاری ہاؤسنگ اسکیموں میں بٹ بٹا گئی۔ اب یہ رفتار تیز ہو گئی ہے۔ اوسطاً ہم روزانہ پانچ سو ایکڑ زرعی زمین سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اس رفتار سے ہر دس برس میں ایک ملین ایکڑ زمین زرعی شعبے کے ہاتھ سے نکلتی چلی جائے گی۔
پچھلے ماہ ایک انگریزی اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ بیس برس میں ضلع حیدرآباد کی لگ بھگ سترہ ہزار ایکڑ زرخیز زرعی اراضی رہائشی اسکیموں میں بدل گئی۔ کم و بیش یہی تناسب ضلع بے نظیر آباد اور سکھر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔دسمبر دو ہزار بیس یعنی تین ماہ پہلے کی ایک رپورٹ کے مطابق ضلع پشاور میں ایک سو چھپن غیر رجسٹرڈ ہاؤسنگ سوسائٹیاں دھڑلے سے پلاٹنگ کر رہی ہیں اور ان میں سے ستر فیصد ہاؤسنگ اسکیمیں بنجر کے بجائے سرسبز زرعی رقبے پر قائم ہو رہی ہیں۔
ضلع ملتان میں ہاؤسنگ اسکیموں کی قربان گاہ پر گزشتہ پانچ برس میں صرف آم کے ایک لاکھ سے زائد درخت قربان ہو گئے۔ ویسے تو وہاں بیسیوں قانونی و غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں۔ مگر ان میں سے بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے اب تک پانچ ہزار ایکڑ سے زائد زمین خریدی ہے جس پر آموں کے باغات اور دیگر نقد آور فصلیں لگائی جاتی تھیں۔
پنجاب اگرچہ پاکستان کے کل رقبے کا چھبیس فیصد ہے مگر اس رقبے میں پاکستان کی پچپن فیصد آبادی بستی ہے۔ چنانچہ اس آبادی کی رہائشی ضروریات اور بڑھتی ہوئی شہری مڈل کلاس کے فرمائشی نخرے اٹھانے کے لیے بڑے بڑے شہروں کے اردگرد کی آباد زرعی زمین ہی ہوس کا پہلا نشانہ بن رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی دو ہزار انیس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شہری پھیلاؤ کی رفتار تین فیصد سالانہ ہے۔ یہ رفتار جنوبی ایشیا میں سب سے تیز ہے۔کہا جاتا ہے کہ جب سے ملتان، اور وسطی پنجاب میں بڑے ڈولپرز نے ہاتھ ڈالا ہے۔ پچیس سے تیس لاکھ روپے فی ایکڑ زرخیز زمین کی قیمت راتوں رات ایک سے دو کروڑ روپے کے درمیان جا پہنچی ہے۔ زمیندار کو زراعت میں زندگی کھپا کر، آڑھتی کے ہاتھوں یرغمال بن کر اور قرضے اتارتے اتارتے اور سرکاروں کا سوتیلی ماں جیسا روپ دیکھ دیکھ کر جو اذیت محسوس ہوتی ہے۔ اس کے پیش نظر کون سا ایسا زمیندار ہوگا جو ایک ایکڑ زمین منہ مانگی تین گنا قیمت پر فروخت کرنے سے انکار کر دے۔ اس کے بعد اس کے کھیت یا باغ میں انسان بسے کہ بھوت۔ بیچنے والے کی بلا سے۔
انگلیوں پر ایسی بھی چند مثالیں ہیں کہ سو میں سے دس زمینداروں نے کسی بھی قیمت پر زمین فروخت نہ کرنے کی ٹھانی تو انھیں طاقتور ڈولپرز نے مختلف قانونی و غیر قانونی مصیبتوں میں پھنسا کر آمادہ کر ہی لیا۔
ریاست اور حکومت زرعی زمین کے وجود کو لاحق رہائشی اسکیموں کے خطرے کو کس قدر سنجیدگی سے لیتی ہے۔ بیانات کی حد تک تو بہت سیریس مگر عمل کی حد تک سیریسلی نان سیریس۔سپریم کورٹ کئی فیصلوں میں آبزرویشن دے چکی ہے کہ رہائشی اسکیموں میں زرخیز زمین کا غائب ہوجانا قومی مستقبل کے لیے ایک خطرناک رجحان ہے۔
وزیر اعظم عمران خان فروری دو ہزار انیس میں پنجاب حکومت کو ہدایت دے چکے ہیں کہ کسی بھی ایسی ہاؤسنگ سوسائٹی یا اسکیم کو منظور نہ کیا جائے جو زرخیز زمین پر ہو۔ بلکہ رہائشی ضروریات کو کم علاقے میں بلند و بالا عمارتوں کی شکل میں پورا کرنے پر توجہ دی جائے۔ مگر وزیر اعظم کی اس ہدایت کا بھی وہی نتیجہ نکلا جو اکثر ہدایات کا نکلا۔
بات یہ ہے کہ جس طرح نیشنل پارک کے قانون کے تحت خطرے سے دوچار وسیع علاقوں کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح وقت کا تقاضا ہے کہ ایک پارلیمانی ایکٹ کے ذریعے زرخیز زمینوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور اسکیموں کے دائرے سے باہر نکال کر صرف زرعی سرگرمیوں کے لیے محفوظ کیا جائے۔ اور اس ایکٹ میں سخت تادیبی اقدامات بھی شامل کیے جائیں۔ صرف بنجر زمین کو کالونائیز کرنے کی اجازت ہو اور اس جانب راغب کرنے کے لیے ایک طے شدہ مدت میں کچھ اضافی مراعات دینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔مگر ہر شعبے میں پھلتی پھولتی مافیا گردی بالخصوص کھربوں روپے کے زمینی و تعمیراتی کاروبار کے ہوتے ایسی تجاویز کا مقدر سوائے ذلت کے اکثر کچھ بھی نہیں۔ آئندہ نسل جانے اور اس کا مستقبل جانے۔ آج کے مزے کو اگلے کل پر قربان کیوں کیا جائے؟
( بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس )

فیس بک کمینٹ

  • 0
    Facebook

  • 0
    Twitter

  • 0
    Facebook-messenger

  • 0
    Whatsapp

  • 0
    Email

  • 0
    Reddit

آم درخت
Share. Facebook Twitter WhatsApp Email
Previous Articleسلمان عابد کا کالم : پی ڈی ایم کی داخلی کشمکش
Next Article ینگون کی سڑکوں پر خون : میانمار کی فوج نے 89 نہتے شہری مار ڈالے
رضی الدین رضی
  • Website

Related Posts

ڈاکٹر انوار احمد کا کالم : ہمارے نصیب کے داغی آم

جون 21, 2025

آموں کاپانچواں سالانہ میلہ ۔300ورائٹیوں کے سٹالز : آم کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی ہو گی ، زاہد گردیزی

جولائی 6, 2022

ملتان میں پاکستان کاپہلا بین الاقوامی معیار کا مینگو میوزیم اور نباتاتی باغ قائم کیاجائے گا۔زاہد حسین گردیزی

جون 7, 2022

Comments are closed.

حالیہ پوسٹس
  • ڈاکٹر صغرا صدف کا کالم : پنجاب کی وحدت پر حملہ آور آکاس بیل سوچ جون 23, 2025
  • بالآخر صدر ٹرمپ جنگ میں کْود پڑا : نصرت جاوید کا تجزیہ جون 23, 2025
  • اسرائیل کی ہزیمت : حامد میر کا تجزیہ جون 23, 2025
  • ایران پر امریکی حملہ: دنیا میں لاقانونیت کا راج : سید مجاہد علی کا تجزیہ جون 23, 2025
  • ایران کا ایٹمی پروگرام تباہ کردیا گیا ، امریکی وزیردفاع کا اعلان جون 22, 2025
زمرے
  • جہان نسواں / فنون لطیفہ
  • اختصاریئے
  • ادب
  • کالم
  • کتب نما
  • کھیل
  • علاقائی رنگ
  • اہم خبریں
  • مزاح
  • صنعت / تجارت / زراعت

kutab books english urdu girdopesh.com



kutab books english urdu girdopesh.com
کم قیمت میں انگریزی اور اردو کتب خریدنے کے لیے کلک کریں
Girdopesh
Facebook X (Twitter) YouTube
© 2025 جملہ حقوق بحق گردوپیش محفوظ ہیں

Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.