ہمیں تو میاں محمودالرشید پر ترس آ رہا ہے۔ اچھے آدمی ہیں۔ ہمارے پڑوسی رہ چکے ہیں۔ پہلے تو صرف ایک دیوار بیچ تھی۔ پھر ایک گلی کا فرق پڑ گیا تھا۔ اب دوری کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہے۔ تجربہ کار اور منجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔ جمعیت طلبہ، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ سے ہوتے ہوئے تحریک انصاف میں آئے ہیں۔ پچھلے ہفتے ان کے ساتھ اچھی خاصی زیادتی ہو گئی۔ پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ کے لئے انہیں تو جو اوپر سے حکم مل رہا تھا وہی تو وہ پیش کر رہے تھے۔ اگر اوپر والوں میں ہی قوت فیصلہ کی کمی ہے تو وہ کیا کر سکتے تھے۔ وہ تو بیچ میں پھنس گئے تھے۔ انہیں اوپر سے ہدایت کی گئی کہ نگراں وزیر اعلیٰ کے لئے فلاں نام دے دو، انہوں نے وہ نام دے دیا۔ پھر اچانک اعلیٰ قیادت پر انکشاف ہوا کہ ’’اوہو، یہ تو غلطی ہو گئی‘‘ فوراً ہدایت آئی کہ یہ نام واپس لے لو۔ میاں صاحب نے وہ نام واپس لے لیا۔ اس وقت اعلیٰ قیادت نے یہ بھی نہیں سوچا کہ جس شخص کا نام دے کر واپس لیا گیا ہے اس کی کیا عزت رہ گئی ہو گی۔ اس کے بعد جو بھانت بھانت کے نام انہیں بتا ئے گئے محمودالرشید وہی سب کو بتاتے رہے۔ اب اگر اسے یوٹرن کہیں، متلون مزاجی کہیں یا قوت فیصلہ کی کمی کہیں، اس میں میاں محمود الرشید کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ سارا کیا دھرا اعلیٰ قیادت کا ہے۔ محمود الرشید خواہ مخواہ شرمندہ شرمندہ سے نظر آ رہے تھے ہمیں تو ڈر یہ لگ رہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت آ گئی تو اس وقت اس ملک کا کیا ہو گا؟ کیا اس وقت بھی یہی ہو گا کہ ایک فیصلہ کر لیا، اور اس کے بعد اچانک خیال آیا کہ اوہو، یہ تو غلطی ہو گئی۔ اور ’’سوری سوری‘‘ کر کے وہ فیصلہ واپس لے لیا۔ اس کے بعد پھر کوئی فیصلہ کیا اور پھر واپس لے لیا۔ اس صورت میں اس غریب ملک اور اس کے ان بے چارے عوام کا کیا ہو گا جو بہت بڑی تبدیلی کے انتظار میں پی ٹی آئی کی طرف نظریں گاڑے کھڑے ہیں؟ اب یہاں ہم عمران خاں کی اس متلون مزاجی یا یوٹرن کی تاریخ بیان کرنا نہیں چاہتے۔ عام آدمی کا حافظہ اتنا کمزور بھی نہیں ہے کہ اسے یہ تاریخ یاد نہ ہو۔ اور ہاں، متلون مزاجی کو ڈھلمل یقین بھی کہتے ہیں۔
بس، سیاست پر ہم اتنی بات ہی کریں گے ۔ ہم کتابوں کی بات کرنا چاہتے ہیں لیکن اس میں بھی اتنی احتیاط ضرور کریں گے کہ جنرل اسد درانی اور ہندوستانی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ اے ایس دولت کی مشترکہ کتاب کا تذکرہ نہ کریں کہ اس پر تفتیش شروع ہو چکی ہے۔ نسیم زہرا کی کتاب پر بات کرتے ہوئے کارگل کا قصہ بیچ میں آ جائے گا۔ اور یہ بتانا پڑے گا کہ اگر کارگل نہ ہوتا تو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات باجپائی کی لاہور یاترا کے راستے پر ہی آگے بڑھ رہے ہوتے۔ اور کارگل کس نے کیا تھا؟ یہ آپ جانتے ہی ہیں۔ ہم ریحام خاں کی کتاب پر بھی کچھ نہیں کہیں گے کہ یہ کتاب ابھی چھپی بھی نہیں ہے کہ اس پر بحث مباحثے شروع ہو گئے ہیں۔ بحث مباحثے ہی نہیں، یہاں تو لڑائی جھگڑے تک شروع ہو چکے ہیں۔ ہم تو ایک ایسی کتاب کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جس میں خلائی مخلوق کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ خلائی مخلوق نہیں جس کا تذکرہ نواز شریف کرتے رہے ہیں بلکہ وہ خلائی مخلوق جس پر کتنے ہی سائنسی ناول لکھے گئے ہیں۔ جن پر بڑوں اور بچوں کے لئے کئی فلمیں بنائی گئی ہیں اور آج تک بنائی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں Trevails with Aliens کے نام سے ہندوستان کے رجحان ساز تخلیق کار، فلم ساز اور ہدایت کار ستیہ جیت رے کی کتاب چھپی ہے۔ اس کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہالی وڈ میں خلائی مخلوق پر اسپیل برگ کی مشہور فلمE.T سے پندرہ سال پہلے ستیہ جیت رے نے ہالی وڈ کی کولمبیا پکچرز کو ایک ایسی فلم کا اسکرین پلے لکھ کر بھیجا تھا جس میں ایک مہربان اور نرم مزاج خلائی انسان زمین پر آتا ہے اور ایک غریب بچے کا دوست بن جاتا ہے۔ یہ دوستی کیا کیا رنگ دکھاتی ہے؟ وہ سب اس اسکرین پلے میں بیان کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں سائنس فکشن کا بہت بڑا نام آرتھر سی کلارک بھی بیچ میں آ جاتا ہے۔ ستیہ جیت نے یہ اسکرین پلے 1967 میں لکھا تھا۔ اب چونکہ ستیہ جیت کا تعلق بنگال سے تھا، اور انہوں نے اسی علاقے اور اس علاقے کے غریب اور بھوکے پیاسے آدمی کی زندگی پر ہی عالمی انعام یافتہ فلمیں بنائی تھیں، اس لئے ان کی اس فلم کی کہانی میں بھی بنگال اور اس کا ماحول ہی دکھایا گیا تھا۔اب حالت یہ ہے کہ اس فلم کا اسکرین پلے لے کر ستیہ جیت رے خود ہالی وڈ پہنچتے ہیں اور وہاں فلم سازوں سے بات چیت شروع ہو جاتی ہے۔ستیہ جیت کا خیال تھا کہ اس وقت کا نہایت ہی مقبول اداکار پیٹر سیلرز اس فلم میں کام کرے گا۔ پیٹر سیلرز بھی اس کے لئے راضی ہو جاتا ہے۔ تمام معاملات طے ہو جاتے ہیں مگر اچانک پیٹر سیلرز کام کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ اور ستیہ جیت ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارنے کے بعد واپس آ جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہالی وڈ میں اس خلائی مخلوق پر جو فلمیں بننا شروع ہوئیں تو آج تک بنتی چلی جا رہی ہیں اور یہ کوئی نہیں کہتا کہ اس کا خیال سب سے پہلے ستیہ جیت رے کو آیا تھا۔ اور انہوں نے اس پر پورا اسکرین پلے لکھا تھا۔ اگر آپ نے اسپیل برگ کی فلم E.Tدیکھی ہے تو آپ کو یاد ہو گا کہ اس فلم میں بھی جو خلائی انسان یا خلائی مخلوق زمین پر آتی ہے اس کی دوستی بھی بچوں سے ہی ہوتی ہے۔ وہ بھی کوئی خطرناک مخلوق نہیں ہے۔ وہ بھی ڈری ڈری اور سہمی سہمی مخلوق ہے۔ اب آپ ہی بتایئے اگر یہ چوری نہیں تو اور کیا ہے۔ ہم نے اپنے بعض شعرا کے بارے میں سنا ہے کہ وہ یہ شور مچاتے ہی مر گئے کہ فلاں شاعر نے ان کا خیال چوری کر لیا ہے۔ یہاں تو ہالی وڈ جیسا عالمی شہرت کا ادارہ اور اس کے فلم ساز تیسری دنیا کے ایک تخلیق کار کا بنا بنایا اور پکا پکایا خیال چوری کر رہے ہیں۔ ستیہ جیت رے کی اس کتاب کا ذکر ہمیں اس لئے کرنا پڑ گیا ہے کہ میاں نوز شریف نے خلائی مخلوق کا اعلان کر کے ہماری توجہ فلمی خلائی مخلوق کی طرف مبذول کرا دی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ