انتخابات مکمل ہو گئے۔ نتیجے سامنے آ گئے۔ عمران خاں وزیر اعظم بن گئے۔ اور ہم نے سکون کا سانس لیا۔ کئی سال سے ہمارے ٹی وی اسکرین پر جو چند چہرے پھنس گئے تھے اور صبح شام جن کی تقریریں، پریس کانفرنسیں اور جلسے جلوس دیکھ دیکھ کر اور سن سن کر ہمارے کان پک گئے تھے، اور آنکھیں پتھرانے لگی تھیں، خیال ہے کہ اب ان سے نجات مل جا ئے گی (اگر فیڈل کاسترو کی طرح ہر شام ٹیلی وژن پر گھنٹہ گھنٹہ بھر کی تقریریں شروع نہ ہو گئیں تو؟) جھگڑے تو اب بھی ختم نہیں ہوں گے۔ بحث مباحثے اب بھی جاری رہیں گے لیکن مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ جو کچھ بھی ہو گا وہ پارلیمنٹ کے اندر ہی ہو گا، سڑکوں پر نہیں ہو گا۔ جمہوری روایات کے مطابق یہی دانش مندانہ فیصلہ ہے۔ اب دھر نے نہیں دیئے جائیں گے۔ سیاست دانوں کو چور، لٹیرے اور ڈاکو نہیں کہا جائے گا اور پارلیمنٹ پر لعنت بھی نہیں بھیجی جائے گی۔ نئے وزیر اعظم عمران خاں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انتقام کی سیاست نہیں کریں گے۔ اور وہ جو عربی میں کہتے ہیں مضی مامضی یعنی جو گزر گیا وہ گزر گیا۔ اس پر عمل کیا جائے گا۔ پرانی باتیں یاد نہیں کی جائیں گی۔ اب صرف وہ وعدے پورے کیے جائیں گے جو سالہا سال سے جلسوں اور تقریروں میں کئے جاتے رہے ہیں۔ اور جو عمران خاں نے الیکشن کے بعد اپنے ٹیلی وژن خطاب میں کئےہیں۔ اب اسلام آباد میں وزیر اعظم کے سیکرٹریٹ کی عالی شان عمارت عوامی مقاصد کے لیے استعمال کی جائے گی اور تمام صوبوں کے گورنر ہائوس ہوٹلوں میں تبدیل کر دیئے جائیں گے۔ لیکن ایوان صدر کا کیا کیا جائے گا؟ اس کے بارے میں نئے وزیر اعظم نے کچھ نہیں بتایا۔ لیجئے، اب یہاں ہمیں ایک اور بات یاد آ گئی۔ چلتے چلتے وہ بھی آپ کو بتا دیں۔ یہ آج سے چالیس پچاس سال پہلے کی بات ہے۔ بی اے قریشی ملتان کے کمشنر تھے۔ انگریزوں کے زمانے کے آئی سی ایس افسر۔ نہایت ہی نستعلیق اور نفیس انسان۔ ان دنوں ملتان کا کمشنر ہاؤس ایکڑوں میں پھیلا ہوا تھا۔ ایک دن وہ کہنے لگے ’’اس لق و دق صحرا میں تنہا ہم اور ہماری بیگم رہتے ہیں۔ کیا ضرورت ہے کسی کمشنر کے لئے اتنے وسیع و عریض گھر کی؟ وہ ایک دو کنال کے گھر میں بھی رہ سکتا ہے۔ یہاں کوئی عوامی بہبود کا ادارہ بنایا جاسکتا ہے۔‘‘ خیر، ان کی زندگی میں تو یہ کام نہیں ہو سکا البتہ برسوں بعد ان کا کہا پورا ہو گیا۔ چودھری پرویز الٰہی کی حکومت میں ملتان کا یہ کمشنر ہاؤس امراض قلب کا اسپتال بن گیا۔ اب ملتان کے کمشنر صاحب کہاں رہتے ہیں؟ یہ ہمیں معلوم نہیں۔
معاف کیجئے، عمران خاں کی بات کرتے کرتے ہم کہاں پہنچ گئے۔ نئے وزیر اعظم عمران خاں نے بھی بی اے قریشی والی بات ہی کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کفایت شعاری والا یہ کام کب شروع ہوتا ہے؟ ہم یہ یاد دلانا نہیں چاہتے کہ نواز شریف نے بھی حکومت سنبھالنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ پرویزالٰہی نے لاہور کے جی او آر میں اپنے سیکرٹریٹ کے لیے جو عظیم الشان عمارت بنائی ہے اسے خواتین کی یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا جائے گا اور وہ ایسا نہیں کر سکے۔ مگر وہ نواز شریف تھے، اور یہ عمران خاں ہیں۔ اور عمران خاں جو کہتے ہیں وہ کر کے دکھاتے ہیں۔ عمران خاں نے اس کے علاوہ عام آدمی کی بھلائی کے اور بھی وعدے کیے ہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ ہر بے زمین کسان کو پانچ مرلے زمین دی جائے گی۔ بے گھر خاندانوں کے لیے پچاس لاکھ گھر بنائے جائیں گے۔ ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار دلایاجائے گا۔ زرعی شعبے میں ایمرجنسی نافذ کی جائے گی۔ اور سرائیکی وسیب کا مطالبہ پورا کرنے کے لیے سرائیکی صوبہ بنایا جائے گا۔ یہ تمام وعدے ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے آدھے وعدے بھی پورے ہو جاتے ہیں تو بلاشبہ اس بدنصیب قوم کی زندگی بدل جائے گی۔ لیکن ہمیں حیرت ہو رہی ہے کہ ہمارے نئے وزیر اعظم نے یہ وعدے تو کر لیے لیکن وہ وعدہ بھول گئے جو وہ اپنے انتخابی جلسوں میں کرتے رہے تھے۔ ہم نے تو ان کے اس وعدے پر پچھلے ہفتے اپنا پورا کالم باندھ دیا تھا۔ اور ان کی تعریفوں کے وہ پل باندھے تھے کہ ہمارے دوست پریشان ہو گئے تھے۔ انہیں یقین ہی نہیں آتا تھا کہ موجودہ حالات میں ایسا انقلابی قدم بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں عمران خاں نے جو وعدہ کیا تھا اگر واقعی وہ پورا ہو جائے تو ہمارے سیاسی ڈھانچے میں ایک انقلابی تبدیلی آ جائے گی اور الیکشن میں دھاندلی کا شور بھی کم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ حکومت سنبھالنے کے بعد وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے ترقیاتی فنڈ بند کر دیں گے اور یہ فنڈ مقامی حکومتوں کو دیئے جائیں گے۔ جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ شہروں اور دیہات میں شہری بہبود اور ترقی کے جو کام کئے جاتے ہیں ان کی ذمہ داری بلدیاتی ارکان کی ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان کا فرض قانون سازی ہے، شہروں اور دیہات میں نالیاں اور سڑکیں بنانا نہیں ہے۔ یہ بھی ہمارے سامنے کی بات ہے کہ پارلیمانی ارکان کو جو ترقیاتی فنڈ دیئے جاتے ہیں ان کی وجہ سے کرپشن اور بدعنوانی کو فروغ ملتا ہے۔ ان بدعنوانیوں کی کہانیاں اکثر ہمارے اخباروں کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ یہ ترقیاتی فنڈ باقاعدہ فروخت کیے جاتے ہیں۔ ان ارکان سے یہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا کہ تمہارے علاقے کے ترقیاتی فنڈ دوسرے علاقے میں کیسے پہنچ رہے ہیں کیونکہ قانونی طور پر انہیں اس کی اجازت ہے۔ اگر عمران خاں واقعی یہ کام کر دیتے ہیں تو ہم مان جائیں گے کہ پاکستانی معاشرے میں واقعی تبدیلی آ چکی ہے۔ اس تبدیلی پر یاد آیا کہ مرکز کے ساتھ تحریک انصاف پنجاب میں بھی اپنی حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ اس کے لیے آزاد ارکان کو گھیرنے اور منانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمیں تو حیرت اس بات پر ہو رہی ہے کہ اب تک کی خبروں میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے لیے جن اصحاب کا نام لیا جا رہا ہے ان میں میاں محمودالرشید کا نام نہیں ہے۔ کیا یہ افسوس کی بات نہیں ہے کہ جس شخص نے پورے پانچ سال پنجاب اسمبلی میں تن تنہا تحریک انصاف کی جنگ لڑی ہے، اب وزیر اعلیٰ بنانے کا وقت آیا ہے تو اسی کے ساتھ ہی ناانصاافی کی جا رہی ہے؟ اسی لئے تو ہم نے اس کالم کا عنوان تبدیلی کا تبادلہ رکھا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ملک میں تبدیلی آتی ہے یا تبدیلی کا تبادلہ ہوتا ہے؟
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ