یہ کس نے کہا تھا کہ ہماری زبان سے گا، گے اور گی کے لفظ نکال دینے چاہئیں۔ یہ ہو جائے گا۔ وہ کر دیا جائے گا۔ لاکھوں گھر بنا دئیے جائیں گے۔ پچاس ہزار نوکریاں دے دی جائیں گی۔ سڑکوں پر کوئی نہیں سوئے گا۔ سب کے لیے اس کا اپنا گھر ہو گا۔ ہر ایک کو پیٹ بھر کھانا ملے گا۔ سب کے پاس صحت کارڈ ہو گا۔ طبی سہولت مفت ملے گی۔ معیشت دوگنی چوگنی ترقی کر رہی ہو گی۔ حالت یہ ہے کہ ہم یہ گاگا گی گی سن سن کر ”لیڈی گاگا‘‘ ہو گئے ہیں۔ آپ لیڈی گا گا کو تو جانتے ہوں گے؟ نہیں جانتے تو انگریزی گانوں کے کسی شوقین سے پوچھ لیجئے۔ اب گھر تو کیا بنتے ”پناہ گاہیں‘‘ بن رہی ہیں۔ وہ بھی اتنی کہ چند بے گھروں یا مسافروں کے سر چھپانے کے لیے ہی کافی ہوں گی۔ پیٹ بھر کھانے کا یہ حال ہے کہ اس کے لیے حکومت کو تکلیف کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ شہر شہر محلے محلے ایدھی اور بحریہ ٹائون جیسے خیرات بانٹنے والوں کے دستر خوان موجود ہیں۔ غریبوں کو دو وقت کی روٹی وہاں سے مل جاتی ہے۔ اور آج کل تو رمضان ہے۔ ہر شام کھاتے پیتے خاندانوں کے گھروں کے سامنے ضرورت مندوں کی بھیڑ لگی ہوتی ہے۔ درست ہی کہتے ہیں کہ پاکستانیوں سے زیادہ خیرات کرنے والے دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتے۔ اس کے لیے حکومت کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حکومت کا کام ہوتا ہے عوام کے لئے روزگار کے مواقع مہیا کرنا۔ ان کے لیے پناہ گاہیں اور دستر خوان فراہم کرکے انہیں بھیک منگا بنانا نہیں۔ لیکن اس حکومت نے تو اپنے آپ کو ہی بھیک منگا بنا لیا ہے۔ جب آپ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلائیں گے تو ان کی شرطیں بھی ماننا پڑیں گی۔ اور شرطیں ماننا پڑیں گی تو عوام کو ملنے والی تمام سہولتوں کے نرخ بھی بڑھانا پڑیں گے۔ مہنگائی بھی کرنا پڑے گی۔ عوام کی چیخیں بھی سننا پڑیں گی۔ اب ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس برتے پر دعوے کیے جا رہے ہیں کہ ہم یہ بھی کر دیں گے اور وہ بھی کر دیں گے۔ کہاں سے کر دیں گے؟ آپ صرف عوام کو ملنے والی علاج معالجے کی سہولت کی بات ہی کر لیجئے۔ غریب اور ناچار عوام کو خوش خبری سنائی جا رہی ہے کہ پنجاب کے تمام سرکاری ہسپتال نجی تحویل میں دے دیئے جائیں گے۔ اس کا مطلب آپ جانتے ہیں کیا ہو گا؟ دوائیں تو پہلے ہی بہت مہنگی ہو گئی ہیں، اس کے بعد علاج بھی غریب کی دسترس سے باہر ہو جائے گا۔ نجی ہسپتالوں میں ڈاکٹر جو فیس لیتے ہیں‘ وہ آپ جانتے ہی ہوں گے؛ البتہ چند نجی ہسپتال ایسے ہیں جہاں واقعی غریبوں کا مفت یا سستا علاج ہوتا ہے۔ لیکن آبادی کے لحاظ سے وہ ہسپتال کافی نہیں ہیں۔ اور تماشہ یہ ہے کہ پرانے ہسپتالوں کی حالت سدھاری نہیں جاتی، نئے ہسپتال بنائے جا رہے ہیں۔
اور اب اس گا اور گی کی بھی سن لیجئے۔ کب سے کہا جا رہا ہے کہ دینی مدرسوں کو محکمہ تعلیم کے ماتحت کر دیا جائے گا‘ اور ان کا نصاب بھی جدید زمانے کے مطابق بنایا جائے گا‘ لیکن اس عرصے میں اگر اس جانب ایک بھی قدم اٹھایا گیا ہو تو ہمیں بتا دیجئے۔ مدرسوں کی بات ہم اس لئے کر رہے ہیں کہ ہماری قوم کے انتہائی غریب طبقے کے بچے ان مدرسوں میں جاتے ہیں۔ غریب تو اس بھی لئے اپنے بچے وہاں بھیجتے ہیں کہ تعلیم کے ساتھ کھانا پینا اور رہنا سہنا بھی مفت ہوتا ہے‘ لیکن یہاں اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ بچے ان مدرسوں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد معاشرے کے لیے کتنے سود مند ثابت ہوتے ہیں؟ حکومتوں کو تو جانے دیجئے کہ انہیں ادھر توجہ دینے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی مگرکیا کسی این جی او یا کسی اور ادارے نے یہ سروے کرایا ہے کہ ان مدرسوں سے فارغ ہونے کے بعد یہ طلبہ کہاں جاتے ہیں؟ کیا پیشہ اختیار کرتے ہیں؟ اور اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ کیسے بھرتے ہیں؟ ظاہر ہے اتنی مسجدیں اور اتنے مدرسے تو ہیں نہیں کہ وہ انہیں اپنے ہاں کھپا سکیں۔ کیا ہمارے وزیر تعلیم ان مدرسوں کی رجسٹریشن کے ساتھ یہ سروے کرانے کی زحمت بھی گوارا کریں گے؟ اب رہی ان مدرسوں کی تعلیم، اور ان کے نصاب کی بات تو خورشید ندیم صاحب نے اس سلسلے میں جو صائب مشورہ دیا ہے اگر اس پر عمل ہو جائے تو نہ صرف دینی تعلیم کا معیار بہتر ہو جائے گا بلکہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ بھی معاشرے میں اپنا کارآمد مقام بنا سکیں گے۔ ان کی تجویز یا مشورہ ہے کہ بارہ جماعت تک تو ہر طالب علم ایک ہی قسم کی تعلیم حاصل کرے۔ اس کے بعد اگر وہ دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس طرف چلا جائے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے میڈیکل یا انجینئرنگ کی تعلیم کے لیے ہوتا ہے۔ ساری دنیا میں یہی طریقہ رائج ہے۔ اس طرح واقعی دینی عالم پیدا ہوں گے‘ کٹھ ملا نہیں۔ ان کا ذہنی افق وسیع ہو گا۔ اور وہ دین کے ساتھ دنیا کے معاملات کا بخوبی علم بھی رکھتے ہوں گے۔ مگر پھر یہاں وہی مسئلہ سامنے آ جاتا ہے ‘گا‘ کہ یہ نیک کام کرے گا کون؟ ہمارے نئے وزیر تعلیم، جو بلا شبہ تعلیم یافتہ کہے جا سکتے ہیں، کیا یہ کٹھن کام کر پائیں گے؟ اور وزیر اعظم آج کے جدید سائنسی دور میں بقول ان کے ”روحونیت‘‘ یا روحانیت کی یونیورسٹی بنا رہے ہیں۔ اس معاملے میں کپتان صاحب بالکل ہی معصوم معلوم ہوتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ آکسفورڈ میں کیا پڑھ کر آئے ہیں۔ انہیں تو جو سمجھا دیا جاتا ہے‘ اسی پر وہ آمنا و صدقنا کہہ دیتے ہیں۔
اب انہیں کون سمجھائے کہ اس خانقاہی نظام نے صرف ہماری معاشرت کو ہی نہیں بلکہ ہماری سیاست کو بھی منجمد کر دیا ہے۔ ہماری سیاست بلکہ ہمارے الیکشن بھی قبائلی سرداروں، جاگیرداروں اور پیروں کے ہاتھ کے بٹیر ہی ہوتے ہیں۔ ہم علامہ اقبال کو تو بہت یاد کرتے ہیں مگر اس خانقاہی نظام کے ساتھ چمٹے رہنا اپنا دین و ایمان سمجھتے ہیں۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیجئے کہ علامہ اقبال سچے تھے یا یہ خانقاہی نظام والے؟ بہرحال یہاں کسی کے کہنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ یہاں کپتان کی ہی بات چلے گی، وزیر تعلیم کی نہیں۔ اور یہ جو وزیر تعلیم مدرسوں کی اصلاح اور نصاب تعلیم بہتر بنانے پر اپنا سر کھپا رہے ہیں، اس کا بھی کچھ نہیں ہو گا۔ اب یہی دیکھیے کہ نئی نئی یو نیورسٹیاں بنانے پر تو توجہ دی جا رہی ہے مگر ابتدائی تعلیم کا کسی کو خیال نہیں ہے حالانکہ اصل علم کی بنیاد سکولوں میں ہی رکھی جاتی ہے۔ چونکہ ابتدائی تعلیم کا معیار کمزور ہوتا ہے اس لئے کالجوں اور یونیورسٹیوں تک یہی حالت رہتی ہے۔ اس صورت میں اگر چند طلبہ اعلیٰ معیار تک پہنچ جاتے ہیں تو یہ ان کی اپنی اہلیت اور صلاحیت یا ان کے قابل اساتذہ کی توجہ اور محنت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یا پھر یہ طلبہ وہ ہوتے ہیں جو مہنگے نجی تعلیمی اداروں سے پڑھ کر آتے ہیں۔ اب یہ خبر بھی پڑھ لیجئے کہ سکول اساتذہ کی ریٹائرمنٹ کی عمر کم کر کے پچپن برس کی جا رہی ہے۔ یعنی مرے پر سو درے۔ معاف کیجئے۔ ہم گا گے گی سے چل کر یہاں تک آ گئے ہیں۔ ہم تو صرف یہ عرض کرنا چا ہتے ہیں کہ وعدے وعید بہت ہو گئے۔ اب جو آپ کرنا چاہتے ہیں، ان کا کوئی معمولی سا حصہ بھی تو ہمارے سامنے آنا چاہیے۔ آپ سے پہلے والی حکومتیں نالائق تھیں، نااہل تھیں۔ ان کے لیڈر چور تھے، بدعنوان تھے۔ وہ بغیر ڈکار لیے سب کچھ کھا گئے۔ مگر آپ بھی تو کچھ کرکے دکھائیے۔ انہیں چور، ڈاکو اور لٹیرے کہتے کہتے آپ کے وزیروں کی زبان نہیں تھکتی۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ اب یہ چور چور چور اور لٹیرے لٹیرے سن سن کر ہمیں تو متلی ہونے لگی ہے۔ اب آپ بھی تھوڑا سا آرام کیجئے۔ اور اس بد نصیب قوم کو بھی آرام کرنے دیجئے۔ اس قوم کو سکون چاہیے۔ مہنگائی نے پہلے ہی اس کی کمر توڑ دی ہے۔ اسے تھوڑا سانس لینے کا موقع تو دے دیجئے۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ