بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں ہنر اے مجمع خوبی
ملاقاتی ترا گویا بھری محفل سے ملتا ہے
داغ دہلوی کے مذکورہ شعر کی تفسیر اس وقت واضح ہوئی ،جب پاکستان رائٹرز کونسل نے خوبصورت قلم کار گل نوخیز اختر کے اعزاز میں ٹی ہاﺅس ،ملتان میں ایک بزم محبت سجائی ، بزم کیا تھی ، موتیوں کی مالا تھی ، ستاروں کی کہکشاں تھی ،بلبل کا ترنم تھا ، کلیوں کا تبسم، یادوں کا سرگم اور پیاروں کا ملن تھا ۔کرسی صدارت پر شہنشاہ ظرافت عطاءالحق قاسمی متمکن تھے ،مہمان خصوصی کی نشست پر قاسمی صاحب کے تلمیذ رشید زاہد حسن جلوہ افروز تھے ، مقررین میں شاکر حسین شاکر، رضی الدین رضی ، سجاد جہانیہ ، ابن قاسمی یاسر پیرزادہ، ناصر محمود ملک، رضیہ رحمان ، فیاض اعوان اور رانا ممتاز رسول جیسی نابغہ روزگار ہستیاں شامل تھیں ، جبکہ سامعین میں الطاف احمد، غلام محی الدین ، حاجی لطیف کھوکھر، مرزا حبیب، شہزاد اسلم راجہ ، شہزاد عاطر، مسیح اللہ جامپوری، صابر عطاءتھہیم، فہیم ساجد، عبدالصمد مظفر ،شفاعت مرزا اور مدثر سبحانی جیسے شائقین قلم و قرطاس ہمہ تن گوش تھے۔
ملتان ادبی،ثقافتی، سماجی،تہذیبی اور سیاسی حوالے سے ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے ، مثل مشہور ہے کہ ”جس کا ملتان مضبوط اس کا دلی مضبوط“ یہ مثل اب تھوڑی ترمیم کے بعد اب یوں مستعمل ہے کہ ”جس کا ملتان مضبوط اس کا اسلام آباد مضبوط“ ۔آج کے عہد کے معروف مزاح نگار، کالم نویس،ڈرامہ رائٹر گل نوخیز اختر بھی شہر ملتان سے ہی تعلق رکھتے ہیں ، انہوں نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بھی یہیں سے کیااور پھر اپنی محنت شاقہ کی بدولت رفتہ رفتہ اس میدان میں قدم جمانے کا مرحلہ اس شان سے طے کیاکہ بڑے بڑے نامور اہل قلم کو کہنا پڑا ”زمیں جنبدنہ جنبد۔۔۔نوخیز اختر“۔انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے مشق سخن سے اپنی جداگانہ پہچان بنالی۔اور جیساہوتا چلا آیا ہے فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والا اس میدان میں تیز رفتارترقی کے لیے پاکستان کے سب سے بڑے ادبی مرکز لاہور کا رخ کرتا ہے توگل نوخیزاخترنے بھی ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی آرزو لئے اس شہر بے مثال کا رخ کیا۔
جب وہ پختہ کاری ، اسلوب، زرخیز تخیل اور مضبوط ارادوں کے ساتھ لاہور وارد ہوئے تو لاہور کے علمی ،ادبی و صحافتی حلقوں کے لیے وہ نامانوس نہیں تھے اس لئے کہ حرف مطبوعہ کے مضبوط راستے سے وہ بنفس نفیس لاہور وارد ہونے سے پہلے ہی اہل قلم سے شناسائی کی منزل طے کرچکے تھے اس لئے اس شہرنے انہیں کسی قسم کی اجنبیت نہ دکھائی او ریوں ہوا کہ جس قلم کی جولانیوں سے انہوں نے شہر اولیاءملتان سے اپنی پہچان کا منفرد سفر شروع کیا تھا اسی قلم کے جواہرپاروں نے انہیں ملک گیر شہرت عطاءکرنے میں تاخیر نہ کی ۔ان کے اعتراف فن کی اس تقریب میں پاکستان کے پنجابی زبان وادب کے عالمی شہرت یافتہ و ایوارڈ یافتہ،شاعر،ادیب اور معروف ناول نگار زاہد حسن نے کہا کہ جسے لاہور سند فضیلت عطاءکردے اسے مزید کسی سند کی ضرورت نہیں رہتی اور اسی طرح دنیا بھر سے حاصل ہونے والی اسناد ، لاہور کے کسی معمولی سے چائے خانے میں بلند ہونے والے ایک قہقے میں تحلیل ہوسکتی ہیں ۔
گل نوخیز اختر کے ساتھ میرا تعلق قلم کتاب سے ناتا جڑنے سے بھی پہلے کا ہے ، میں جہاں مزدوری کرتا ہوں ،اسی جگہ کے قریب ہی وہ بسرام کرتے ہیں ، میں روزانہ دو مرتبہ آتے جاتے ایک گھر کے باہر ایک اجلی سی نیم پلیٹ پڑھا کرتا ، جس پر تحریر تھا گل نوخیز اختر، کالم نگار، ان کے نام میں عجیب طرح کا سحر اور نسوانیت جھلکتی نظر آتی ، یوں میں نے ایک الہڑ اور بانکی سجیلی نار کا خیالی پیکر تراش رکھا تھا ، لیکن جلد ہی وہ موہوم پیکر چکنا چور ہوگیا جب میری نوخیز صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی تو میں نے جانا یہ تو سندرششلیا کی بجائے ، راجہ بھیا ہیں اور یوں بادل نخواستہ مجھے انہیں بھائی ہی بنانا پڑا ۔
گل نوخیز اختر نے طویل فنکارانہ سفر طے کیا ہے ، میں بلاخوف ابطال یہ نعرہ لگاتا ہوں کہ نوخیز حقیقی قلم کار ہے ۔ نوخیز مشرقیت کا علمبردار ہے اور مٹی کی بوباس ان کی رگ رگ میں سماچکی ہے۔گل نوخیز اختر نے تقریباً تمام اصناف سخن میں کامیاب طبع آزمائی کی ہے ، وہ ہمیں ٹی وی پر بطور اینکر پروگرام بھی کرتے نظر آئے ، مشاعروں اور ادبی محافل کی کمپیرنگ بھی کرتے دیکھے گئے ، مائم تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے سلگتے سماجی مسائل اور انسانوں کو بصورت شارٹ فلم بھی اجاگر کرتے پائے گئے ، اسی طرح شاعری ، کالم نگار، افسانہ نگاری ، ڈراما نگاری، اسکرپٹ رائیٹنگ جیسے مجالات میں تسلسل سے خامہ فرسائی کررہے ہیں ، لیکن شاید یہ استاد کامل جناب عطاءالحق قاسمی کی نگاہ لطف کا اثر ہے کہ ان کی حقیقی پہچان اور مرتبہ بطور مزاح نگار ہونا قرار پائی ہے ۔
مزاح جس کے لیے انگریزی زبان میں ایک لفظ ”ہیومر“ مستعمل ہے ، اصلاًً یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے ، جس معنی رطوبت کے ہیں ، حکماءکہتے ہیں کہ انسانی مزاج کے توازن اور شگفتگی کے لیے رطوبت اور حرارت غریزی کا تال میل ضروری ہے ۔مزاح کا محلول تین عناصر ، زرو بیان، دانشمندی اور حسن انتخاب سے تشکیل پاتا ہے ۔مزاح زندگی کی کلفتوں اور تلخ کامیوں کو کافور کرتے ہوئے انشراح قلب کا قوی اور آزمودہ نسخہ ہے ،حضرت انسان کو تمام مخلوقات پر اشرفیت کے حصول کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جملہ مخلوقات میں صرف ایک انسان ہی تو ہے جو ہنستا ہے ، روتے تو جانور بھی ہیں ،اردو ادب کے نامور قلم کار کرشن چندر کہا کرتے تھے کہ ”جو شخص ہنسنا نہیں جانتا ، مجھے تو اس کے انسان ہونے پر بھی شک ہے “۔
گل نوخیز اختر کا منفردلہجہ اور بے تکلف انداز بیاں ،اس کی مقبولیت کی اہم وجہ ہے ، انہوں نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی بجائے فنی ریاضت پر زور دیا اسی فنی ریاضت کا ثمر ہے کہ وہ اردو طنزومزاح میں وہ مقام حاصل کرچکے ہیں کہ مذکورہ صنف ان کے حوالے کے بغیر نامکمل متصور ہوگی ۔ان کے قلم سے نکلی تحریر پھکڑبازی، چٹکلوں اور لطیفوں کی بجائے زندگی کی سچائیوں ،خوشیوں ، تلخیوں اور غموں کی عکاسی کرتی ہے،یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے رنج و غم اور مسائل کو اپنا سمجھ کر ہی سپرد قرطاس کرتے ہیں۔ وہ اپنے قاری کو اپنی تحریرمیں اس طور جذب کرلیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ہی ان کے تخلیق کردہ بحر الفاظ میں بہتا چلا جاتا ہے ، وہ اپنی حیات کے واقعات و حادثات کے بیان سے اپنے دور کی تاریخی جھلکیوں سے روشناس کروانے کا فن بھی بخوبی جانتے ہیں ۔ان کی نکتہ رس تخلیقات بالیدگی اور سرشاری کا احساس اجاگر کرتی ہیں ۔ ایک کامیاب سماجی سائنسدان اور فطرت انسانی کے ماہر نباض ہیں ۔
میری دعا ہے کہ گل نوخیزاختر الفاظ و حروف ہمیشہ مہکتے رہیں ، ان کے تخیل کا چاند یوں ہی چمکتا رہے اور ان کی ادبی تخلیقات ادبی منظرنامے کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں ۔بقول اشفاق حسین ۔
پھول مہکیں گے یوں ہی چاند یوں ہی چمکے گا
تیرے ہوتے ہوئے منظر کو حسیں رہنا ہے
فیس بک کمینٹ