سئیں خواجہ غلام فرید اور خانوادہ بھگت(فقیرا بھگت اور موہن بھگت) اور روہی آ پس میں لازم وملزوم ہیں۔انہی شخصیات نے روہی کے لق ودق صحرا کو گل و گلزار اور رومانوی سر زمین میں ڈھال دیا ۔خواجہ کی کافی میں اور ان بھگتوں کے گلوں میں روہی بولتی ھے ،روہی کی جٹیاں گاتی ہیں، گاہیں اپنے گلوں کی ٹلیوں سے موسیقی کشید کرتی ہیں اور یہاں کی ہواوں کے لے سے سر جنم لیتے ہیں۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ روہی "سر”کی وادی ھے۔ گزشتہ دنوں پیپلز سٹڈی سرکل لیہ کی محفل میں اسی وادی کا شہزادہ المعروف موہن بھگت آیا ، تھلوچڑ اہل دانش سے ہم کلام ہوا ،روہی ،تھل ،خواجہ سئیں ،اشو سئیں اور وسیب کی تہذیب ،ثقافت اور مقامیت پر خوب صورت گفتگو ہوتی رہی۔مزار خان نے ماضی کے کئی دلربا واقعات سنا کر تخلیقیت سے مملو اداسی سے محفل پر ایک وجدانی کیفیت طاری کر دی تو شرکائے محفل نے موہن بھگت سے موسیقی سنانے کی درخواست کی اور موہن نے اپنے مخصوص تنبورے سے دل موہ لینے والے سر بکھرے۔سچل سرمست ،خواجہ فرید اور اشو لال کا کلام ہو اور موہن کے گلے کے سر ہوں تو محفل پر وجد تو طاری ہونا ہی ہوتا ہے ۔مختصر سی محفل اور پرسکون ماحول نے ایک عجیب سا سماں باندھ دیا اور شرکائے محفل پر سریلی کیفیت پیدا کر دی۔یوں لگا کہ روہی اور تھل ہمارے ویڑھے میں آ ن پہنچے ہیں۔گداز دلوں اور حساس مزاج دوستوں نے جی بھر کر موہن کو سنا اور خوب داد دی۔اس شعر کے مصداق:
پیار نہیں ہے جس کو سر سے
وہ مورکھ انسان نہیں ہے ! ! !
ہر شریک محفل ایک "ترفع”لیے اپنے اپنے چہروں پر لطیف کیفیات سجائے دکھائی دے رہا تھا ۔سچ کہتے ہیں اعلی انسانی قدروں اور رویوں کو سنوارنے میں ” سر”کا ایک بڑا کردار ہوتاہے ۔شکسپیئر تو اس سے بھی بڑھ جاتا ھے۔اس نے کہا تھا:جس شخص کو موسیقی سے پیار نہیں ھے،وہ قابل اعتماد ہی نہیں ہے "۔
فیس بک کمینٹ