لاہور : پاکستان کے شہر لاہور میں انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے گذشتہ برس لاہور سیالکوٹ موٹروے پر ایک خاتون کو ان کے بچوں کے سامنے ریپ کرنے کے جرم میں دونوں ملزمان عابد ملہی اور شفقت کو سزائے موت سنا دی ہے۔
سرکاری وکلا کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ ایک ایسے مقدمے میں فیصلہ دیا گیا ہے اور ملزمان کو سزائے موت سنائی گئی ہے جس میں متاثرہ خاتون کے اصل نام سمیت ان کی شناخت کو ابتدا سے آخر تک خفیہ رکھا گیا تھا۔ صوبہ پنجاب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل عبدالجبار ڈوگر نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ ’متاثرہ شخص گمنام یا نا معلوم ہو اور عدالت اس کے حق میں فیصلہ دے اور فیصلہ بھی ملزمان کو سزائے موت ہو۔‘
عبدالجبار کا کہنا تھا کہ پہلی مرتبہ اس بات کو یقینی بنایا گیا تھا کہ متاثرہ خاتون کی شناخت کو وِٹنس پروٹیکشن ایکٹ کے سیکشن 14 کے ذریعے مکمل طور پر صیغہ راز میں رکھا جائے اور اس کے لیے ان کا فرضی نام اور فرضی شناختی کارڈ نمبر استعمال کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماسوائے ان چند وکلا کے جو اس مقدمے کی پیروی کر رہے تھے، کسی کو بھی متاثرہ خاتون کا حقیقی نام معلوم نہیں تھا۔ ’حتی کہ ایف آئی آر سے لے کر طبی معائنے کی رپورٹس اور تمام تر عدالتی کاغذات میں یہی فرضی نام استعمال کیا گیا تھا۔‘
خیال رہے کہ پاکستان میں اس نوعیت کے زیادہ تر مقدمات میں ملزمان کو عدالت سے سزا دلوانے میں ایک بڑی رکاوٹ یہ سمجھی جاتی ہے کہ متاثرہ خواتین شناخت ظاہر ہونے اور بدنامی کے خوف سے ان مقدمات کی پیروی ہی نہیں کرتیں۔عدالت نے مقدمے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اس کی تمام تر پیروی لاہور کی ڈسٹرکٹ جیل کے اندر ہی کی تھی اور سنیچر کے روز مقدمے کا فیصلہ بھی جیل کے اندر ہی سنایا گیا تھا۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر پنجاب کے مطابق فیصلے کے دن بھی عدالت میں متاثرہ خاتون کا حقیقی نام ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔تاہم انھوں نے بتایا کہ ’عدالت نے متاثرہ خاتون کی شناخت کے حوالے سے تمام تر تصدیق تفتیشی افسر کی رپورٹ، طبی معائنے اور دیگر رپورٹوں کے ذریعے کروا رکھی تھی۔‘
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے دونوں ملزمان کو خاتون کے ریپ کے جرم میں سزائے موت، ڈکیتی کے جرم میں 14 برس قید جبکہ خاتون کو یرغمال بنانے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ملزمان کے پاس ان تینوں سزاؤں کے خلاف اعلٰی عدالتوں میں اپیلیں دائر کرنے کا حق موجود ہے۔ تاہم اگر سپریم کورٹ کے بعد صدر سے ان کی رحم کی اپیل بھی مسترد ہو جاتی ہے تو ان تینوں سزاؤں میں سب سے پہلے سزائے موت پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب عبدالجبار ڈوگر کے مطابق ’اس صورت میں باقی سزاؤں کا جواز ہی نہیں رہتا اور انھیں سب سے بڑے جرم میں سب سے پہلے سزا دی جائے گی اور وہ ریپ کے جرم میں سزائے موت ہے۔‘ استغاثہ کے وکلا پرامید ہیں کہ ان کے پاس انتہائی مضبوط شواہد موجود ہیں جن کی روشنی میں ملزمان کو اعلٰی عدلیہ سے بھی ریلیف ملنا مشکل ہو گا۔
متاثرہ خاتون نے اندھیرے میں ملزمان کو کیسے دیکھا؟
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک سے زیادہ ایسے ٹھوس شواہد عدالت میں پیش کیے گئے تھے جن کی روشنی میں عدالت نے ملزمان کو قصوروار قرار دیا اور سزائیں سنائیں۔ مقدمے کی پیروی کے دوران ملزمان کے وکلا نے متاثرہ خاتون کی طرف سے دونوں ملزمان کو شناخت کر لینے کے حوالے سے یہ اعتراض بھی اٹھایا تھا کہ وہ ملزمان کو شناخت نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ جس جگہ واقع پیش آیا وہاں مکمل اندھیرا تھا اور یوں ان کے لیے ملزمان کے چہرے دیکھنا مشکل تھا۔
دفاع کے وکلا نے عدالت میں یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ متاثرہ خاتون نے درحقیقت ملزمان کی میڈیا پر چلنے والی تصویروں کے زریعے انھیں شناخت کیا تھا۔
’حادثے کے بعد کبھی میڈیا نہیں دیکھا‘
تاہم ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کے مطابق اس کا متاثرہ خاتوں نے عدالت میں مفصل جواب دیا تھا۔ ’انھوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ دونوں ملزمان جب سڑک کنارے کھڑی ان کی گاڑی کی طرف آئے تھے تو وہ گاڑی کے سامنے کی طرف سے آئے تھے اور اس وقت ان کی گاڑی کی ہیڈ لائٹس جل رہی تھیں۔ ان لائٹس کی روشنی میں انھوں نے دونوں ملزمان کے چہرے اچھی طرح دیکھے تھے۔‘ انھوں نے عدالت کو مزید بتایا تھا کہ جس وقت ملزمان ان کی گاڑی کا شیشہ توڑ کر زبردستی ان کو گاڑی سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہے تھے، عین اسی وقت پاس سے گزرنے والے ایک شخص کی گاڑی کی روشنی میں انھوں نے ملزمان کے چہروں کو زیادہ قریب سے دیکھا تھا۔ یہ اُسی گاڑی کا ڈرائیور تھا جس نے بعد میں پولیس کو 15 پر واقعے کی اطلاع دی تھی۔ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کے مطابق متاثرہ خاتون نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ حادثے کے دن کے بعد سے انھوں نے کبھی بھی میڈیا نہیں دیکھا تھا۔ ’وہ اس وقت بھی عدالت میں بیان دیتے ہوئے اس قدر ذہنی دباؤ کا شکار تھیں کہ وہ رو پڑی تھیں۔‘
( بشکریہ : بی بی سی اردو )