مردان میں مشعل خان کےقتل سے جہاں دنیا بھر میں پاکستان کو سبکی ہوئی وہیں
یہ ہولناک سانحہ صوبہ میں تبدیلی کی آس لگائے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی امیدوں پرکسی کاری ضرب سے کم نہیں ۔ پاکستان کے صوبہ پختونخواہ میں قانون اور انصاف کی بالادستی کے لئے عمران خان کے آہنی عزائم کو چیلنجز کا سامنا ہے۔
1992 میں پاکستان کے خوبرو کر کٹر عمران خان کا ستارہ عروج پر تھا. یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے عالمی کپ کے بعد کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔
اسی دور میں عمران خان کی ایک کتاب "غیرت مند مسلمان ” بھی شائع ہوئی۔
"غیرت مند مسلمان” دراصل عمران خان کا ایک سفر نامہ ھے جو انہوں نے وزیرستان کے قبائل کے رسوم و رواج کا بغور مشاہدہ کرنے کے بعد تحریر کیا۔ اس کتاب کو جنگ بک کلب نے شائع کیا تھا۔
ایسے معلوم ہوتا تھا کہ مغرب کی بے لگام ثقافت میں پلے بڑھے پاکستانی کرکٹر وزیرستان کے آزاد قبائل سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں عمران خان نے قبائل کے جرگہ سسٹم کی بہت تعریف کی یہاں تک کہ ان کا خیال تھا کہ یہ نظام پورے پاکستان میں نافذ ہوجانا چاہیے تا کہ شہریوں کو سستا اور فوری انصاف مل سکے۔ یہاں یہ سمجھنا غلط نہ ہو گا کہ شاید یہی وہ وقت تھا جب عمران خان نے تحریک انصاف کے خدوخال طے کئے۔ یوں عمران کے سیاسی سفر کا غیر رسمی آغاز ہوا۔
پاکستان کی سیاست میں جگہ بنانے کے لئے عمران خان کو طویل عرصہ محنت کرنا پڑی۔ کرکٹ کو خیرباد کہنے کے بعد پاکستان کے نامور کرکٹر نے ابلاغ کے ذریعے پاکستانی معاشرے پر مغربی اثر رسوخ کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا.عمران خان کا خیال تھا کہ پاکستان کے عوام اپنی تہذیب اور روایات کو اپنانے میں ہچکچا ہٹ کا شکار ہیں.انہوں نے بارہا پاکستان کے تھانہ کلچر اور برطانوی راج سے حاصل ہونے والے عدالتی نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
2013 کے انتخابات میں عمران کو خیبر پختونخواہ میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کا شمال مغربی سرحدی صوبہ شورشوں کا مسکن رہا ہے۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حالیہ تاریخ میں برطانوی راج ہی پختون قبائل کو سمجھنے اور ان کے رواج کی پاسداری میں کامیاب رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کے عمران خان کی سیاسی جماعت کی خیبر پختون خوا میں حکمرانی سے ہمیں بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں۔
عمران خان کی والدہ کا تعلق لاہور کے با اثر برکی خاندان سے تھا جو وانا (وزیرستان) سے پہلے جالندھر اور پھر لاہور میں آباد ہوا۔ اسی ناطے عمران خان کے مشاہدات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان کو یہ فائدہ بھی حاصل ہے کہ قبائل سے ان کا خونی رشتہ ہے اور وہ آکسفورڈ گریجویٹ بھی ہیں۔ یہی نہیں عمر کا بیشتر حصہ لندن میں گزارنے کے باعث پاکستان کے دیگر بدعنوان سیاست دانوں کے برعکس وہ جمہوری تقاضوں کو زیادہ بہتر طور پر سمجھنے کے لئے بھی کوالیفائی کرتے ہیں۔
کے پی کے میں پاکستان تحریک انصاف حکومت کو چار سال ہونے کو ہیں اس عرصہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حامی سیاسی قوتوں سے الحاق کے باوجود صوبہ بھر میں حکومت کی رٹ (عملداری) دم توڑتی نظر آر ہی ہے۔ کے پی کے پولیس عملاً نااہل ثابت ہو رہی ہے اورایسا محسوس ہوتا ہے کہ صوبہ کے عوام انصاف کے فرسودہ نظام سے اکتا کر اپنی عدالتیں سجانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
کے پی کے پولیس کا کردار گزشتہ چار برسوں میں تماشائی سے زیادہ نہیں رہا۔
جولائی 2013 میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر طالبان کے حملہ کی انکوائری رپورٹ نے صوبہ کی پولیس کو "بزدل اور بےحس” گردانتے ہوئے یہ نشاندہی بھی کی کہ صوبہ کی "پولیس نے تاریخ کا سیاہ باب رقم کیا” (ڈان رپورٹ)۔
چار سال بیشتر ڈی آئی خان جیل کی حفاظت سے لیکر پولیس کی موجودگی میں مشعل خان کا بہیمانہ قتل اور چترال میں حالیہ واقعات اس لئے بھی باعث تشویش ہیں کہ عمران خان شاید پولیس اصلاحات میں کوئی خاطر خواہ پیشرفت نہیں کر سکے۔
غیرتمند مسلمان میں، عمران خان نے قبائل کے جنگجو رویہ، انتقام یا بدلہ لینے کی دھن اور جرگہ سے انصاف کی غیر معمولی تعریف تو کی مگر انہوں نے رواج کے استحصال سے صرف نظر کیا۔ یہ بتانے سے بھی گریز کیا کہ ان علاقوں میں مہمان اور پناہ گزیں عموماً جرائم پیشہ افراد ہی ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی شاید قصداً نہیں کی کہ جرگہ جرائم کو پولیس کے قوانین کے خلاف تحفظ کے لئے اکثراستعمال ہوتا ہے۔
انصاف اور قانون کی بالادستی کے نعروں پر مقبولیت حاصل کرنے کے بعد عمران خان کو نہ صرف پاکستان کے غیور قبائل کے جرگہ کی طرز پر کوئی نیا نظام فراہم کرنا ہے بلکہ صوبہ کی مفلوج ہوتی پولیس کو فعال بنانے کے لئے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ خان صاحب کے لئے اب وقت بہت کم ہے۔ اگر عمران خان اور کے پی وزیر اعلیٰ صوبہ کے تعلیم یافتہ اور روشن خیال نوجوانوں کی نمائندگی میں ناکام رہے تو مشعل خان کا قتل پاکستان کی ابھرتی ہوئی مقبول سیاسی قوت کے لئے کسی المیہ سے کم نہیں۔
فیس بک کمینٹ