کیا امریکہ میں بھی فوجی بغاوت ہو سکتی ہے؟
شاید آپ کو یہ سوال کچھ عجیب سا لگے کیونکہ مغرب کی مستحکم جمہوریت میں گزشتہ کئی عشروں میں شاید کسی نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ ہو گا مگر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کاایک سال مکمل ہونے کے بعد امریکی اسٹبلیشمینٹ میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔عالمی سیاست میں چین اور جرمنی کے بڑھتے اثر رسوخ سے امریکہ کا اکلوتی سپر پاور ہونے کا بھرم بھی ختم ہو چکا ہے۔ ایسے میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسا جذباتی اور غیرمعتدل حکمران امریکیوں کی اکثریت کے لیے تشویش کا باعث بن رہا ہے۔ گزشتہ ماہ امریکی سینیٹ کے ایک غیر معمولی اجلاس میں امریکی فوج کے سینئر افسران نے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ عالمی امن کے لیے شدید خطرہ ہے۔امریکی فوج کا کمانڈران چیف ہونے کے ناطے ڈونلڈ ٹرمپ کو جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے اختیارات بھی حاصل ہیں۔ اس تشویشناک صورتحال پر غور کرتے ہوئے سینیٹ کے ممبران کو یہ بھی بتایا گیا کہ امریکی افواج کے پاس صدر کے حکم کی عدولی کی آیئنی گنجائش موجود ہے۔
جب فوجی بغاوت کو قانونی طور پر جائز قرار دیا گیا تو حالیہ امریکی تاریخ میں یہ ایک اپنی نوعیت کا انوکھہ واقعہ تھا۔ مگر شاید امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بزور طاقت یا آیئنی طریقہ کار سے ہٹائے جانے کے امکانات پر مغربی ابلاغ میں کوئی بحث نہیں ہوئی؟ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف فوج اٹھ کھڑی ہو؟ یہ امکانات بحرحال موجود ہیں۔ ویسے بھی اگر یہ کہا جائے کہ ٹرمپ کی صدارت کے خاتمہ کا آغاز ہو چکا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ امریکی انتظامیہ تقریباً بغاوت پر آمادہ ہو چکی ہے۔ امریکی عدالتیں حکومتی اقدامات کو چیلنج کر رہی ہیں۔ حال ہی میں ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جب امریکی فوج اور بحریہ کے سینیئر افسران نے امریکی صدر کے احکامات کو بڑی ڈھٹائی سے نظر انداز کر دیا۔امریکی سینیٹ کی خارجہ پالیسی کی کمیٹی نے ان امکانات پر تفصیلی غور کیا کہ اگر امریکی صدر جوہری میزائل چلانے کے لیے اپنے اختیارات کا استعمال کریں تو ان کو باز رکھنے کے لیے آیئنی اور قانونی طریقوں کو کب اور کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ گزشتہ 40 برس میں امریکی صدر کے احکامات کی بجاآوری کی بجائے ان کو روکنے کی یہ پہلی کوشش ہے۔ 1976 میں رچرڈ نکسن کوبھی اسٹیبلشمنٹ کے اسی طرح کےرویہ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔گزشتہ ماہ جب سینیٹ کی خارجہ کمیٹی میں بحث کا آغاز ہوا تو امریکی سینیٹر رچرڈ مرفی نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا ہمارے لیے یہ بات باعث تشویش ہے کہ امریکی صدر کا مزاج اتنا غیر متوازن ہے کہ ان کی فیصلہ سازی کی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔ ”وہ امریکی مفادات کے برعکس جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا حکم جاری کر سکتے ہیں، اسی حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ہم ایک غیر معمولی بحث کا آغاز کرنے جا رہے ہیں“۔
جب امریکی صدر کے خلاف سینیٹ میں توہین آمیز الفاظ کا استعمال ہو رہا ہو تو ایسے میں ٹرمپ کی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان بے وجہ نہیں۔ گزشتہ پورا سال امریکی ابلاغ اور ٹرمپ کے سیاسی مخالفین نت نئے اسکینڈل اچھالتے رہے اور امریکی صدر کا مزاج اور حرکتیں تماش بینوں کا موضوع بحث رہیں۔حکمران ریبلیکن پارٹی کے ممبران بھی اس بات سے متفق ہیں کہ موجودہ صدر امریکہ کو تیسری جنگ عظیم میں دھکیلنے جا رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو اوول آفس میں ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ حال ہی میں دورہ ایشیا سے واپسی پر امریکی صدر نے دعوی کیا کہ ایشیا کے ممالک میں امریکی کاروبار کا فروغ ان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ مگر اگلے ہی دن امریکی انٹیلی جنس کے سابق چیف نے امریکی صدر کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے دیا۔سی آئی اے کے عہدہ داروں کو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ ٹرمپ نے روس کے صدر پیوٹن کے اس بیان کو کیوں مان لیا کہ روس نے امریکہ کے انتخابات میں مداخلت نہیں کی ۔ روس کو مغرب کے لیے ایک مستقل خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ امریکی میڈیا کے بعد حلقے ٹرمپ کو غدار کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی غور طلب ہےکہ سینیٹ کے اجلاس میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق امریکی صدر کے اختیارات میں کسی بھی قسم کی ترمیم کی تجویز زیر غور نہیں۔ سینیٹ ممبران کا آئنیی ترامیم سے احتراز اس بات کا غماز ہے کہ امریکی صدر کی تبدیلی بعید ازقیاس نہیں۔ فیصلہ سازی کے عمل میں کسی بھی قسم کی تبدیلی آئندہ امریکی صدر کے لیے فرائض کی بجاآوری میں رکاوٹ کا سبب بن سکتی ہے۔
ان تمام خدشات کو دیکھتے ہوئے کیا امریکی فوج بغاوت کر سکتی ہے؟ اور اگر ایسا ہوا تو کیا تمام امریکی ریاستیں اس طرح کی مہم جوئی کو قبول کر لیں گی؟
ممکنہ فوجی بغاوت کے منصوبہ سازوں کو متعدد محازوں پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ امریکی نظام حکومت میں طاقت کا ارتکاز ممکن نہیں اور اگر چند لوگ حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں تو ان کے لیے صرف واشنگٹن پرحکمرانی کافی نہ ہو گی۔ فوج کشی کو مؤثر بنانے کے لیے سیاست، معیشت اور ابلاغ پر واضح غلبہ حاصل کیے بغیر اس طرح کی کوئی بھی کوشش بار آور نہ ہو گی ۔ ویسے بھی امریکی انٹیلی جنس اداروں کی مکمل ہم آہنگی کے بغیر کسی بھی قسم کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہ ہی نہیں سینیر فوجی افسران کی باہمی رضا مندی اور ملٹری ہارڈوئیر کو استعمال میں لائے بغیر حکومت کی تبدیلی کا خواب تعبیر نہیں ہو سکتا ۔
ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ترک صدر نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی حکومت کو گرفت میں رکھا۔ موجودہ دور میں مواصلات پر مکمل کنٹرول کامیابی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
امریکہ کا مواصلاتی نظام انتہائی بوسیدہ ہے اس لیے کمپیوٹرز کو ہیک کرنا انتہائی آسان ہے۔ فوج کے لیے انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے اپنے مواصلات کے نظام کو محفوظ بنانا ہو گا۔صدر ٹرمپ اور ان کے ساتھی کسی بھی بغاوت کے لیے کس حد تک تیار ہیں ؟ بغاوت کرنے والے کانگرس سے کیا ڈیل کریں گے؟
سیاسی حلقوں اور اسٹیبلیشمینٹ اور ٹرمپ کے مخالفین اس موقع کی تلاش میں ہیں کہ ان کے صدارتی منصب کو چیلنج کیا جا سکے۔ سینیٹ کے غیر معمولی اجلاس میں امریکی صدر کی حکم عدولی کی آئینی حیثیت پر بحث سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بغاوت کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
ایک مکمل اور کامیاب فوجی بغاوت امریکی جمہوری نظام میں فوری طور پر ممکن نہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غیر معمولی حالات میں نا ممکنات کے حصول کے لیے متعلقہ حلقوں میں غورو فکر شروع ہو چکا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مخالفین کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے مگر واشنگٹن پر فوج کشی کے لئے بہرحال رائے عامہ ہرگز ہموار نہیں۔
بشکریہ: کرنٹ افیرز ڈائجسٹ
فیس بک کمینٹ